باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سب نے جانا ہے۔آج وہ کل ہم مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعض لوگوں کے جانے سے آپ ہل کے رہ جاتے ہیں۔ایسے لوگ ہو سکتا ہے ہر سال ہر مہینے میں پیدا ہوتے ہوں مگر ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ آپ کی جان پہچان میں نہ ہوں۔اللہ کے نیک اور اچھے بندوں کی کمی نہیں۔قحط الرجالی کا دور ہم لوگ کہہ دیتے ہیں ایسے ہی لیکن یہ نا ممکن ہے کہ دنیا کے اس کاروبار کو سنبھالنے کے لئے اللہ پاک نے کچھ بندے نہ پیدا کئے ہوں۔میرے دوستوں میں کمال کے لوگ ہیں ایک نسیم محمود جن کی ہر سانس کے کے ساتھ دعا کرتا ہوں۔وہ بیمار ہوئے تو دل گرفتہ سا ہو گیا۔الریاض کی وہ شام مجھے اچھی طرح یاد ہے جب خمیدہ کمر کے ساتھ نسیم محمود ملنے آئے تو میری آنکھوں میں نمکین پانی آ گیا۔میں سمجھ رہا تھا کہ شائد اب ہم خوابوں میں ملیں گے ۔اللہ کا کرم ہوا وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔اللہ انہیں لمبی عمر دے۔
اچھے دوست دوستوں کے لئے دعاؤں کا تحفہ دیتے ہیں۔اپنے دکھ بھول کر دوسروں کے دکھ خرید لیتے ہیں اللہ میرے دوستوں کی اس درخشاں اس لڑی کو سلامت رکھے۔جیسا پہلے بتایا یہ ضروری نہیں کہ آپ کے چاہنے والے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں۔آج ایک ستارہ ٹوٹا ہے۔میرے مخلص دوست خواجداد آف مانسہرہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔واجد نے مجھے فیس بک میسینجر سے یہ خبر دی کہ بنی مالک جدہ میں مقیم خواجداد گجر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
میری ان سے ملاقات ۲۰۱۳ کے اوائل میں ہوئی وہ سردار یوسف جو وفاقی وزیر ہیں ان کے گرائیں تھے برادری کا تعلق بھی تھا۔سردار صاحب سے دوستی کا رشتہ پرانا ہے برادر محترم چودھری ذوالفقار علی اور مرحوم بھائی مختیار گجر کے ساتھ ان کا تعلق تھا ہمارے لئے ایسے تعلقات وزن رکھتے ہیں سیاسی خیالات گرچہ مختلف ہیں میں بھی سمجھتا ہوں وہ کتنے نون لیگئے ہیں ان سے رشتہ ان رشتوں سے سوا ہے ۔خواجداد انہی کے حوالے سے دوست بنے۔سادہ درویش سا بھائی ہر وقت سعودی شماغ جو سرخ رنگ کا ہے وہ پہنے رہے۔ہم نے حج کے بعد ایک تقریب سردار صاحب کے اعزاز میں رکھی اس میں وہ میرے ساتھ شریک میز بان تھے۔جدہ میں ہم ہم پاکستان کے نام سے بھی مل بیٹھتے تھے ایک بڑی تنظیم حلق ء یاران وطن بنا رکھی تھی جس میں مختلف خیالات کے ساتھی ہوا کرتے تھے جہلم سے چودھری شہباز حسین،ایبٹ آباد کے سردار شیر بہادر،چکوال کے جناب ملک محی الدین اس طرح ملتان کے ملک سرفراز،کراچی سے مسعود پوری ہم سب پاکستان کے نام پر مل بیٹھتے کبھی مسلم لیگی آ گیا تو اس کے اعزاز میں فنکشن کبھی کوئی اور آیا غرض مل بیٹھنے کے بہانے تھے۔خواجداد میرے پاس آئے اور ہم نے پروگرام بنایا کہ کہ کامیاب حج کے بعد ایک بڑی تقریب کا انعقاد کرنا ہے۔سردار یوسف کے بارے میں اتنا کہہ دوں کہ ان کے پاس کامیاب حج کا اعزاز ہے۔ہم نے ایک خوبصورت پروگرام فائن گرل ریسٹورینٹ میں رکھا جس میں کوئی دو سو کے قریب لوگ شامل ہوئے ۔بھائی خواجداد ہی در اصل کے میزبان تھے انہوں نے ہی اس فنکشن کے اخراجات برداشت کئے ۔ہمارے مہمانوں میں سردار یوسف، امین الحسنات، ملک افتخار،سردار ظہور ،صالح محمد،حافظ سجاد قمر، اور کثرت رائے بھی تھے۔فائن گرل کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے بھی مہمان تھے یہ ایک جدہ کی یاد گار اور خوبصورت تقریب تھی۔میں در اصل اس لمحے کی بات کرنا چاہوں گا جب میں نے ان سے درخواست کی وہ آئیں اور مہمانوں کے ساتھ سٹیج پر بیٹھیں عاجزی کے اس پیکر نے کہا نہیں آپ کسی اور کو جگہ دے دیں میری خیر ہے۔
اس کے بعد ان کا ہمارے ساتھ آنا جانا ہوا۔میرے بیٹے دلدار سے ان کی انسیت ہو گئی۔دلدار انہیں پیار سے چا چا کہتا اور ان کی طرف سے شفقت ملتی۔لیاقت یوسف کے ساتھ دو ایک بار گھر تشریف لائے۔
میں انہیں اس لئے نہیں بھول پاتا کہ وہ ہزارہ کے لوگوں پر جان چھڑکتے تھے خصوصا اپنے عزیزون رشتے داروں کے لئے ایک چھتری تھے۔
وہ کل صبح تہجد کے لئے اٹھے بعد میں وضو کر کے نماز کے لئے گئے واپس آنے کے بعد عزیزوں سے کہا کہ میرا سرہانہ سیدھا کرو۔خود پاؤں لمبے کئے اور کہا کلمہ پڑھیں میرے ساتھ۔اور کہا اچھا اللہ کے حوالے اور تھوڑی دیر میں گردن لٹک گئی،سبحان اللہ۔یہ تھی ان کی موت۔ان کی میت وہاں ہسپتال میں رکھ دی گئی ہے۔سردار یوسف صاحب نے اپنے عزیزوں کو کہہ کر قونصل خانے کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کے جسد خاکی کو پاکستان لایا جائے۔آج وہاں چھٹی ہے کل بھی ہو گی۔لگتا ہے ان کی باڈی تین چار روز میں پہنچ جائے گی۔
سچ پوچھیں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی قوم برادری کا سرمایہ ہوتے ہیں۔خواجداد گجر ایک غریب پرور تھے۔وہاں کے محلہ بنی مالک میں بیسیوں لوگوں کو لے کر ان کے روزگار کا سبب بنے ہوئے تھے۔مانسہرہ کے یہ جفاکش لوگ سٹیل ہینگرز بنانے کا کام کرتے تھے۔وہ مدت دراز سے پاکستان صرف اس لئے آئے کہ پیچھے ان کے ساتھیوں کا کون خیال رکھے گا۔
خیال تو اللہ کی ذات رکھنے والی ہے اب بھی وہ لوگ رہیں گے مگر ایک سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا ہے۔
مجھے پتہ چلا ہے کہ ان کے بھائی وہاں مانسہرہ کے منتحب چیئرمین ہیں۔آج سنا ہے کہ وہاں کی جرنلسٹ کمیونٹی نے ان کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔میرے یہ چند لفظ ،لفظ دعا ہی سمجھیں۔ایک دکھی دل کے ساتھ رات کے آخری لمحوں میں مکمل کر رہا ہوں۔اس دعا کے ساتھ اللہ پاک زندگی میں ان جیسا کر دے۔اور مرنے کے بعد پیارے آقا کی شفاعت انہیں اور مجھے بھی عطا کرنا۔
یقیناًان کے چاہنے والوں کے لئے یہ خبر اندوہناک ہے اور میں بھی ایک چاہنے والا ہوں مجھے بھی ایک پیارے شفیق بھائی کے بچھڑنے کا گہرا صدمہ ہے۔یہ ایک درویش اور سایہ دار گنے درخت کی موت تھی۔مجھے نہیں لگتا کہ وہ پڑھے لکھے تھے مگر یہ ضرور پتہ ہے وہ ایک یونیورسٹی تھے۔حق مغفرت کرے
جانے والا جا چکا تھا اور میری آنکھ میں اک لرزتا ٹمٹماتا سا ستارہ رہ گیا (منور ہاشمی)