افکار تازہ
ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
ہمارے اخبارات میں سیاسی، مذہبی، سماجی اور دیگر موضوعات پر کالم تو باقاعدگی سے پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوعات پر بہت کم لکھا جاتا ہے حالانکہ عصر حاضرکاتقاضا ہے کہ عوام الناس کوجدید تحقیقات سے نہ صرف آگاہی ہونی چاہیے بلکہ نت نئی معلومات اور دنیا بھر میں ہونے والے نئے نئے انکشافات کا علم ہونا چاہیے جن کا تعلق براہ راستہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے اور جو کہ علم نافع کا درجہ رکھتی ہیں۔ کائنات کے اسراورموز کے علم، غور وفکر اور جستجوکی اہمیت اس سے واضع ہوتی ہے کہ خالق کائنات نے انسانیت کے نام اپنے آخری پیغام میں بار بار اس کا ذکرکیا ہے اور قرآن حکیم کا تقریباََ بارہ فیصد اسی پر مشتمل ہے۔ اسی حکم ربانی کی تعمیل میں قارئین کی آگاہی کے لیے گاہے بگاہے ہماری روزمرہ کی زندگی سے متعلق سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی جدید سائنسی تحقیقات جو عام آدمی کے بھی اہم اور دلچسپ ہوں پر مشتمل تحریر پیش کی جائے گی۔یہ سلسلہ آج کے اس کالم سے شروع کیا جارہاہے اور اگر قارئین نے اسے سراہا تو اسے جاری رکھا جائے گا۔
سب سے پہلے یہ خبر کہ مستقبل میں یہ بھی ممکن ہوسکے گا کہ آپ اپنے موبائل فون کے ذریعہ اپنے پیغامات کو خوشبو اور ذائقہ سے لبریز کرکے بھیج سکیں گے بلکہ اپنے ہاتھوں کا لمس بھی اس میںشامل کرسکیں گے۔ برطانیہ میں ماہرین کو اس سمت میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور ان کہنا ہے کہ سمارٹ فون سے یہ ممکن ہوسکے گا۔ دوسری خبر یہ کہ فضائی سفر کرتے ہوئے ایک ٹائم زون سے دوسرے ٹائم زون میں جانے سے بہت لوگوںکو جیٹ لاگ کی وجہ سے طبیعت بہت گراںہوجاتیہے جس کا علاج طبی ماہرین نے سٹیرائیڈ ہارمون سے تلاش کرلیا ہے اب مستقبل میں اس پریشانی سے بھی چھٹکارا مل سکے گا۔ چھٹکارا تو دانتوں کی حساسیت سے ہونے والے درد سے بھی آسانی کے ساتھ مل سکے گا۔ تائیوان میں طبی ماہرین نے کیلشیم ، فاسفورس اور دیگر اجزاء سے ایک پیسٹ تیار کی ہے ۔ اس کے استعمال سے دانتوں کی حساسیت دور ہونے کے ساتھ دانتوں کی محفوظ تہہ انیمل کی تعمیر نو بھی ہوسکے گی۔ طبی دنیا سے ایک اور اچھی خبر بہرے افراد کے لیے ہے جو اب اپنی زبان کی مدد سے سن سکیں گے۔ ایک ننھا منھا آلہ کو بہرے افراد کی زبان کے ساتھ منسلک ہوگا جہاں سے وہ بلیو ٹوتھ ٹیکنالوجی کو بروے کار لاتے ہوئے دماغ کو سننے کے سگنل بھیج سکے گا اس طرح بہرے افراد سن سکیں گے۔اور یہ کہ ڈارک چاکلیٹ دل کی بیماریوں اور فالج سے بچائو کے ساتھ ساتھ یاداشت بہتر بنانے کے لیے بھی اہم ہے ۔ اس چاکلیٹ میں موجود فلیوانول نامی مادہ یہ اہم کرادر ادا کرتا ہے۔
بچوں کی بیماری آٹزم کے حوالے سے سویڈن اور امریکہ میں دو مختلف تحقیقات سے اس مرض کے بارے میں کچھ نئی معلومات سامنے آئیں ہیں۔ آٹزم کا عارضہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں زیادہ ہوتا ہے اور تین سال کی عمر میں اس کی علامات واضع ہوجاتی ہیں۔ماہرین نے سولہ اہم امور کی موجودگی کی بنا پر اس عارضہ کی تشخیص کو معیار بنایا ہے۔ اہم علامات میں بچے کا براہ راست دوسرے کو متوجہ نہ کرنا، بولنے میں تاخیر، دوسرے بچوں سے کم مل جل کر کھیلنا اور شدید صورتوں میں چلنے میں دشواری بھی شامل ہے۔جینز (Genes ) اور ماحولیات اس مرض کا باعث ہیں۔ اگر بچے کی پیدائش سے قبل ماں فضائی آلودگی کے ماحول میں رہے تو مرض ہونے کا امکان دو گنا بڑھ جاتا ہے خصوصاََ زمانہ حمل کے آخری تین ماہ جب دماغ کی تیزی سے بڑھوتی کا عمل ہورہا ہوتا ہے۔ یہ تحقیق امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کی گئی ہے۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جسم انسانی چار سو مختلف قسم کے خلیوںکا مجموعہ ہے جن کے افعال بھی مختلف ہیںلیکن ان میں موجود وراثتی مادہ ڈی این اے ایک ہی قسم ہوتا ہے اور اس میں تغیر و تبدل بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔
وائرس کو کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا کیوں وہ بیماریوں کا باعث ہوتے ہیں لیکن سویڈن کی لند یونیورسٹی میں ہونے والی ایک اہم تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ وائرس ہمارے دوست بھی ہیں اور وہ ہمارے دماغ کے پیچیدہ نیٹ ورک کے بنانے اورکارکردگی میں اہم کرادر ادا کرتے ہیں ۔ جسم انسانی کے ڈی این اے کا پانچ فی صد ریٹرو وائرس پر مشتمل ہوتا ہے جس بارے میںپہلے یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بے کار سی شئے ہے مگر لند یونیورسٹی کے ماہرین نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے اسے دماغ کی کارکردگی اور ذہانت کے لیے اہم قرار دیا ہے۔ حکیم الامت نے بجا فرمایا تھا کہ
نہیں ہے چیزنکمی کوئی زمانے میں ! کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
اسی طرح بیکٹیریا آپ کے موڈ کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ آنتوں میں موجود مفید بیکٹیریا ہمارے مددگار ہیں اور وہ کھانا ہضم اور جذب کرنے کے ساتھ ساتھ وٹامن بی پیدا کرتے ہیں اور یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ مزاج پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ان مفید بیکٹیریا کی حامل مختلف مصنوعات جوس، دہی اور دیگر صورتوں میں تجارتی طور پر فروخت ہوتی ہیں۔
سویڈن کی معروف میڈیکل یونیورسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ میں الزائمر بیماری پر تحقیق سے اس مرض کے علاج میں پیش رفت سامنے آئی ہے ۔ طبی ماہرین نے اس مرض میں مبتلا مریضوں کے جسم میں ضاص قسم کے خلیے داخل کیے جنہوں نے اعصابی خلیوں کو اس ا نداز میں متحرک کیا کہ نئے صحت مند اعصابی خلیے پیدا ہوگئے ہیں جس سے یہ امید ہے کہ مستقبل میں اس مرض کا علاج ممکن ہوسکے گا۔ ورزش کے حوالے سے کئی ایک تحقیقات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق ورزش یاداشت بہتر بنانے کا بھی باعث ہے خصوصاََ ساٹھ کی عمر کے بعد بعد ورزش کرنے سے یاداشت بہتر ہوتی ہیں۔ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد آدھ گھنٹہ چہل قدمی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ کھانے کے بعد چہل قدمی کے حوالے سے رسول اللہ ۖ سے منسوب ایک روایت بھی ہے ۔ اور آخر میں یہ تحقیق کہ دیار مغرب میں رہنے والو یہ جان لو کہ کھانے میں مغربی طرز زندگی ماحولیات اور صحت انسانی کے لیے مضر ہے۔ مغربی کھانوں Refind, Processed اور زیادہ تیل اور روغنیات پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ کے کھانے زیادہ سلاد، پھل اور بہتر روغنیات کی وجہ سے صحت کے لیے بہت مفید ہیں ۔پندرہ امیر ترین ممالک کے لوگ اپنی روزانہ ضروریات کے برعکس چار سے پانچ سو حرارے کی اضافی خوراک کو ہڑپ کرجاتے ہیں جو مختلف امرض جن میں سرطان، دل اور دوران خون کے امراض شامل ہیں ان میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ سرورکائنات ۖنے کیا سنہرا اصول دیا تھا کہ بہترینطریقہ میانہ روی ہے۔