گل بخشالوی
جیو اور اے آر وائی کی ذاتی رقابت نے قوم کا سکون برباد کر رکھا ہے دونوں چینل اپنے اپنے گیت اپنوں اپنوں میں گارہے ہیں خود کو فرشتہ سیرت اور دوسرے کو شیطان سیرت ثابت کیا جارہا ہے ۔پوری قوم تقسیم ہوگئی ہے مذہبی رہنما تنخواہ دار ملازمین کی طرح اپنی ذمہ داری نبھارہے ہیں ۔قومی اور مذہبی فریضہ بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے لیکن پوری قوم جانتی ہے دونوں چینلوں کا اپنا کوئی گریبان نہیں دوسرے کے گریبان میں جھانک کر الیکٹرونکس میڈیا پر ڈرامہ کیے جارہے ہیں ۔کاش!ان کے اپنے مذہبی گریبان ہوتے جس میں دیکھ کر انہیں احساس ہوتا کہ ہم اپنے پروگراموں میں مذہب قوم قومیت اور انسانیت کو کیا دیکھا رہے ہیں کیا پیغام دے رہے ہیں ۔
جیو نیوز معافی کیساتھ اپنی صفائی پیش کررہا ہے اور اے آر وائی کو موقع ہاتھ لگا ہے وہ جیو کو مجرم ثابت کرنے کیلئے پنجوں پر کھڑا ہے ۔جیو نے قومی دفاعی ادارے اور آلِ بیت کی شان میں گستاخی کی ہر مکتبہ فکر نے اس کی مذمت کی لیکن حکومت اور عدلیہ خاموش تماشائی ہے سوچنا پڑے گا کہ اگر قومی سلامتی کے ادارے حکومت اور عدلیہ انتہائی بے بس ہیں تو قوم اور قومیت کی کیا خدمت کرسکیں گے ۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کہہ رہے ہیں کہ اگر جیو والوں نے معافی مانگ لی ہے تو انہیں معاف کردیں اس لیے کہ کاروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا!
اس سے بڑھ کر قوم اور دین کی توہین اور کیا ہوسکتی ہے ۔پرویز رشید قومی اداروں اور میڈیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں یہی نا!کہ جرم کرو ،معافی مانگ لو ،اللہ اللہ خیر صلا،کاروائی کا جواز ختم ہوجائے گا ،ڈوب مرنے کا مقام ہے ایسے خود پرست رہنماں کیلئے ۔
جیو پر الزام ہے بداخلاقی کا لیکن اے آر وائی کے مبشر لقمان کو جیو کے خلاف بولنے سے اگر فرصت ملے تو گھر میں اپنے بچوں کیساتھ بیٹھ کر اپنے چینل کا پروگرام دیکھ لیں ۔یقینا اسے شرم آئے گی اپنے بچوں کیساتھ اپنے کیمرہ مین کے ان سوالات پر جو درندگی کا شکا ر ہونے والی 7سالہ بچی سے کیے جا رہے ہوتے ہیں تمہارے ساتھ زیادتی کیسے ہوئی کب ہوئی ،کہاں ہوئی ،کیوں ہوئی ؟گرفتا ر درندہ صفت نوجوان سے سوال ہوتے ہیں تم نے بچی کیساتھ کیا کیا ،کہاں پر کیا ،کیوں کیا ،کیسے کیا؟
کیا کسی مہذب معاشرے میں میڈیا پر یہ سب کچھ کسی اور مذہبی ملک میں کسی نے دیکھا ہے جو پاکستان میں دکھا یا جارہا ہے ،فلمایا جارہا ہے درندگی کا شکار ہونے والے معصوم خاندان تو معاشرے سے منہ چھپائے پھرتے ہیں ایسے معصوم لوگوں کی تشہیر کہاں کی انسانیت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو وزیر اعلی تک کیمرہ بینوں کیساتھ ایسی بدنصیب خواتین کے سرپر ہاتھ رکھنے چلے آتے ہیں ۔
کیا ہمارا مذہبی معاشرہ اس قدر بدصورت ہے کیا پاکستان کے مذہبی معاشرے میں پرائیویٹ چینلوں کے مالکان نے کوئی ضابطہ اخلاق اپنے لیے بھی بنایا ہے کیا ان کے کیمرہ مینوں کو کبھی یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ کسی 7سالہ معصوم بچی سے سوال کریں بیٹا !آپ نے قرآن کہاں سے حفظ کیا ،کیوں حفظ کیا،کیسے حفظ کیا ،کس لئے حفظ کیا لیکن ایسی باتیں تو مذہی معاشرے میں وہ لوگ کرسکتے ہیں جن کے شعور اور فکر میں قوم ،قومیت اور شان مصطفے کی روشنی ہو