عارف محمود کسانہ
’’میں اپنا خون دے کر ثابت کروں گا کہ میں کس مقصد کے لیے جدوجہد کررہاہوں‘‘۔ مقبول بٹ نے ۱۱ فروری 1984کو تہاڑ جیل دہلی میں تختہ دار پر آزادی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے دعویٰ کو سچ کر دیکھایا۔ شہید کشمیر نے پھانسی کے پھندے کو چومتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ کشمیری موت سے نہیں ڈرتے اور وہ آزادی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔تاریخ انسانی میں بہت بہادر اور نڈرانسان گذرے ہیں لیکن بطل حریت مقبول بٹ جیسا جری اوربہادر انسان شائد ہی تاریخ انسانی میں ملے۔ اگر کسی کوپھانسی کی سزا سْنائی گئی ہو، جہاں کی حکومت بھی اْس کی جانی دشمن ہو اور وہ پھانسی کی کوٹھڑی توڑ کر دشمن کی قید سے باہر نکلا ہو اور سب نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پھر ایک بار موت کے منہ میں جانے کی ہمت کرے وہ مقبول بٹ ہی ہوسکتا ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ انہیں پھانسی دے کر غاصب قوتوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ اب تحریک آزادی ختم ہوجائے گی مگر یہ اْن کی خام خیالی ثابت ہوا اور شہید کے خون سے جلنے والے چراغ کی لو سے وادی کشمیر روشن ہونے لگی اور عوامی بیداری کی وہ لہر اٹھی اور کشمیری عوام نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم صرف آزادی چاہتے ہیں۔ ہم نہ ہی ریاست جموں کشمیر کی تقسیم چاہتے ہیں اور نہ ہی غیر ملکی تسلط تسلیم کریں گے۔ مقبول بٹ نے کشمیری نوجوانوں میں آزادی کی روح پھونک دی ۔ اقوام متحدہ کی بے عملی اور مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی اور ٹاخیری حربوں سے کشمیری قوم بے زار ہورہی تھی۔ دنیا کے منصفوں کو کشمیرکی وادی میں بہتے ہوئے لہو کا جب شور سْنائی نہیں دے رہاتھا تو مقبول بٹ نے اپنی قوم کو بتا دیا کہ آزادی مانگنے سے نہیں چھیننے سے ملتی ہے اور غلامی کے اندھیروں کو اپنے خون کے چراغ جلاکر ہی روشن کیا جاسکتا ہے۔
آج مقبول بٹ کا نام ایک تحریک کا نام بن گیا ہے۔ کشمیری نوجوان خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو وہ شہید کشمیر کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں آزادی کے لیے مصروف جدوجہد ہے۔ مقبول بٹ نے جب یہ دیکھا کہ کشمیری عوام کو اعتماد میں لیے بغیر اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث آپریشن جبرالٹر کی ناکامی،1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد معائدہ تاشقند کے بعد مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالا جارہا ہے تو انہوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ساتھی میجر امان اللہ کے ہمراہ بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں جاکر کشمیری نوجوانوں کو تربیت دینا شروع کی۔ ایک مقابلہ میں بھارتی آفیسر امرچند کی کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں قتل کے بعد مقبول بٹ گرفتار ہوئے اور اْن پر مقدمہ چلاکر انہیں پھانسی کی سزا سْنائی گئی۔ جج نے جب اپنا فیصلہ سنایا تو مقبول بٹ نے بڑی دلیری سے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ پھندا نہیں بنا جس سے مقبول بٹ کو پھانسی دی جاسکے۔ اور انہوں نے یہ اس وقت سچ کردیکھایا جب وہ دسمبر 1969کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سری نگر جیل توڑ کر مظفر آباد پہنچے۔ لیکن یہاں آکر بھی اْن پر ظلم و ستم کا دور جاری رہا اور بلیک فورٹ میں انہیں پابندِ سلال کردیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد رہائی ملنے کے بعد وہ پھر متحرک ہوگئے۔اْس وقت مسئلہ کشمیر جمود کا شکار ہورہاتھا۔ کشمیری سیاستدان مظفر آباد اور سری نگر کی کرسی کے پجاری بننے لگے اور حصول اقتدار کی خاطر وہ آزادی کو بھول چکے تھے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر بھی مسئلہ کشمیر کو دنیا بھول رہی تھی۔1971کی جنگ اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ عبداللہ مایوس ہوگئے اور انہوں نے اندرا گاندھی سے معائدہ کرلیا جبکہ دوسری جانب بھٹو اور اندرا معائدہ کے بعد پاکستان اور بھارت نے عملاََ تقسیم کشمیر کو تسلیم کرتے ہوئے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن قرار دے دیا۔ مقبول بٹ نے ایک بار پھر جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بار پھر بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں اپنے دو ساتھیوں ریاض ڈار اور حمید بٹ کے ساتھ1976 میں داخل ہوگئے۔ یہ کوئی آّ سان فیصلہ نہ تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہاں ان کے لیے سزائے موت کا فیصلہ موجود ہے پھر بھی وہ بے پناہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں چلے گئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر تحریک آزادی کو متحرک نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے نام پر کشمیر فروشی کا راستہ نہ اپنایا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور پاکستان یا آزادکشمیر میں پرآسائش زندگی گذار سکتے تھے لیکن انہوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھا تھا۔ وہ کشمیری نوجوانوں کو ایک بار پھر تربیت دینے لگے تاکہ مادر وطن کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا جائے۔ اسی دوران وہ ایک بار پھر بھارتی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور انہیں تہاڑ جیل دہلی میں پابند سلال کردیا گیا۔ انہوں نے جیل سے بھی درس حریت جاری رکھا۔ آخر کار وہی ہوا جو غاصب قوتیں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ موت ایک حقیقت ہے اور ایک دن سب کو اس کا سامنا کرنا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں موت بھی سلام پیش کرتی ہے مقبول بٹ بھی انہیں میں سے ایک تھے جنہیں موت نے تہاڑ جیل دہلی میں 11 فروری 1984 کو سلام پیش کیا۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
مقبول بٹ کی شہادت پر کشمیری قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ اْس کی جرات و بہادری اور جوش و جنوں کو شکست نہیں دی جاسکی ۔ مقبول بٹ شہید کی والدہ کی عظمت کو سلام جس کے چار بیٹے جدوجہد آزادی میں شہید ہوئے اور پانچویں ظہور بٹ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔مقبول بٹ نے کشمیری نوجوانوں کے قلوب میںآزادی کی جو شمع روشن کی ہے وہ اب ریاست جموں کشمیر کی آزادی پر ہی جا کر ختم ہوگی۔سری نگر میں مزار شہدا میں ان کے لیے مخصوص آخری آرام گاہ آج بھی ان کی منتظر ہے جس کی لوح پر لکھا ہوا ہے۔ ’’شہید اعظم ۔ جس کا جسد خاکی حکومت ہند کے پاس امانت ہے قوم کو آج بھی اس کا انتظار ہے‘‘۔ ریاست کے عوام آزادی کے سورج کے طلوع ہونے کے بھی منتظر ہیں۔ رات کیسی بھی سیاہ اور طویل ہو ،سپیدہ سحر سے تاریکی چھٹ جاتی ہے اور طلوع آفتاب ہو کر ہی رہتا ہے۔