افکار تازہ
ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
٨ مارچ ۔ خواتین کے عالمی دن پر خصوصی کالم
یہ کیسا معائدہ ہے کہ جو دو فریقین باہمی رضا مندی سے کرتے ہیں لیکن جونہی معائدہ پر دستخط ہوتے ہیں ایک حاکم بن جاتا ہے اور دوسرے کی حیثیت محکوم کی ہوجاتی ہے حالانکہ معائدہ میں ایسی کوئی شرط موجود ہوتی ہی نہیں ۔ ہمارے سماج میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے اور نکاح کے بعد بیوی محکوم اور خاوند حاکم اور مجازی خدا بن جاتا ہے جو بعض اوقات مجازکے سابقہ کو بھی اتار پھینکتا ہے۔بد قسمتی سے ہماری سماجی اور مروجہ مذہبی تشریحات ان رویوں کی تائید میں یک جان ہیںحالانکہ اسلام کی تعلیمات اس کے برعکس ہیں۔ قرآن حکیم نکاح کو ایک معائدہ قرار دیاہے (٤٢١) اور مرد کی عورت کو بھی اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کا پورا حق دیتا ہے (٤١٩)۔قرآن نکاح کے موقع پر لڑکی کو کچھ (مہر) دینے کا حکم دیتا ہے نہ کہ لینے کا ، جو ہمارے ہاں جہیز کی صورت میں ہوتا ہے۔ کتنی لڑکیاں ہیں جن کے والدین جہیز کا مطالبہ پورا نہیں کرسکتے اور وہ بیچاری ایسے ہی بیٹھی رہتی ہیں۔ میاں بیوی کے حقوق ق فرائض کی تعلیمات دیتے ہوئے قرآن حکیم نے اس رشتہ کو حاکم اور محکوم کا رشتہ نہیں کہا بلکہ اسے سکون، رحمت اور محبت کا تعلق قرار دیا ہے(٣٠٢١)۔ مردوں پر معاشی ذمہ داری ڈالتے ہوئے انہیںذمہ داری سونپی ہے جس کا معانی حاکم نہیں ہے جسے بعض سورہ نساء کی آیت ٣٤ الرجال قومون النساء سے مطلب اخذکرتے ہیں۔اسی آیت میں قرآن حکیم اس حقیقت کا بھی اعلان کرتا ہے کہ کچھ خوبیاں مردوں میں میں اور کچھ عورتوں میں اور پھر عورتوں کو مردوں کا ہمدوش قرار دیتے ہوئے اُن تمام صلاحیتوں اور خوبیوں کی تفصیل الگ الگ کرکے بیان کردیتا ہے کہ جو خوبیاں مردوںمیں ہیں وہی عورتوں میں بھی موجود ہیں(٣٣٣٥)۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ جس قدر عورتوں کی ذمہ داریاں ہیں اسی قدر ان کے حقوق ہیں( ٢٢٢٨ )۔ جب قرآن حکیم یہ کہتا کہ تمام بنی نوع آدم قابل عزت ہیں (١٧٧٠) تو اُس میں مر اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ مردوں کو یہ تاکید کہ عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آئو اور اگر اکوئی بات ناگوار بھی گذرے تو تحمل سے کام لو (٤١٩) جس کی وضاحت آقاۖ نے یوں کی کہ اگر اپنی عورت کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی تو اسے نظر انداز کرکے اُس کی اچھی بات کو مد نظر رکھو۔ عورت کی اللہ نے یوں عزت افرائی کہ قرآن حکیم کی ایک بڑی سورة کا نام النساء رکھ دیا۔
عورت کی ہمارے معاشرہ میں بہت عزت ہے صرف اس وقت جب وہ ماں، بیٹی یا بہن ہوتی ہے لیکن جب یہی عورت بیوی کے رشتہ میں ہوتی ہے تو وہاں صورت حال مختلف ہوجاتی ہے۔ حالانکہ آقاۖ نے بار بار تاکید اور اپنے آخری خطبہ میں بھی یہی کہا کہ عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آئو اور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔ انسان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم نسبی اور سسرالی دونوں رشتوں کا بتایا ہے اور دونوں کو اہمیت دی ہے (٢٥٥٤)۔ مگر ہمارے معاشرے کا چلن دیکھیے سسرال کے تمام رشتوں کو گالی بنا دیا گیا ہے یہاں تک کہ ماموں کے رشتہ کوبھی گالی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ ہمارے جو لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر افسردہ ہوتے ہیں وہ ہمارے سفاک سماجی ریوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بیٹی کے والدین کی حیثیت سے پوری عمر اسے بھگتنا ہے۔ داماد اور بیٹی کے سسرال والے جو مرضی کہیں اور کریں بیٹی والوں کاکام برداشت کیے جانا ہے۔ ہندو معاشرہ کے اثرت ابھی بھی ہمارے اندر رچ بس گئے ہیں جہاں بیٹی والے ہمیشہ دبے اور جھکے رہتے ہیں۔ معاشی استحصال کی داستان جہیز سے شروع ہوتی ہے جو پوری عمر جاری رہتی ہے یہاں تک کہ خدانخواستہ اگر دامادکا انتقال ہوجائے تو تجہیزو تکفین سے لیکر مہمانوں کے کھانے کا بھی لڑکی والوں کو انتظام کرنا پڑتا ہے۔ بیٹیوں کا استحصال بعض اوقات خود اُن کے والدین بھی کرتے ہیں جب وہ بہت سے امور میں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے جب مرد کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کی اہمیت عورت سے زیادہ ہے۔ اسی رویہ کے باعث مرد عورت کو اپنی طرح کا انسان نہیں سمجھتا اور شادی بعد وہ عورت کو بچے پیدا کرنے ، کھانا پکانے اور خدمت گذاری کا ذریعہ سمجھتا ہے اور خود جو چاہے مرضی کرے ۔اس کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کرے اور چاہے تو تین لفظ بول کر اسے بے گھر کردے ۔عورت کا تو کوئی گھر نہیں اور نہ کوئی عورت کی فریاد سننے والا اور نہ کوئی اس کا مداوا۔ اگر کوئی خاوند اچھا سلوک کربھی لے تو بڑا احسان جتائے گا اور وہ ایسا کرے کیوں نہ جب اسے بچپن سے تربیت ہی ایسی دی گئی ہے۔ اگر کوئی عورت اپنا حق لینا چاہے تو معاشرہ اور رشتہ دار اسے بُرا سمجھیں گے۔ مرد کے لیے مجازی خدا اصطلاح ہی غلط، غیر انسانی اور غیر اسلامی ہے۔ غیرت صرف عورت کے لیے ہی کیوں ؟ مرد کے معاملہ میں غیرت کیوں نہیں۔ اگر لڑکی کوئی جرم کرلے تو وہ گردن زنی کے قابل لیکن اگر وہی جرم لڑکا کرے تو خاموشی۔
عورت کے ساتھ یہ رویہ رکھنے والے مسلمان ہونے کے دعوی دار ہیں جن کے رسولۖ پاک نے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ وہ آدمی تم میں سے زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہے اور فرمایا کہ میں اپنی بیویوں کے لئے بہت اچھا ہوں۔ آپ نے کبھی اپنی کسی بیوی کو نہ گالی دی اور نہ ہی اُس پر ہاتھ اٹھایا۔ اپنے آخری خطبہ میں امت کو تاکید کہ عورتوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کے پابند رہواور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کیذریعے ان کو اپنے لیے جائز و حلال کیا ہے۔ بیوی اور اولا د کو قرآن حکیم نے آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا (٢٥٧٤) ۔ عورت کو دنیا میں سب سے پہلے یہ عظیم مقام اور مرتبہ دینے والے نبی رحمتۖ کے ساتھ بد قسمتی سے ایسی رویات جن میں عورتوں کو کم تر، منحوس،کم عقل اور اسی طرح کی اور باتیں منسوب کردی گئیں جو واضع طور پر وضعی اور من گھڑت ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اللہ کے منع کرنے کے باوجود آدم نے حوا کے کہنے پر ہی وہ شجر ممنوع کے پاس گئے اور پھل کھایا جس کی قرآن حکیم نے کھلے الفاظ میں تردید کردی اور کہا کہ وہ دونوں اس کے ذمہ دار تھے (٢٣٦)۔ مغربی معاشرہ نے عورت کو آزادی تو دی لیکن اسے مقام انسانیت نہیں دیا ۔ یورپ ، امریکہ اور دیگر ممالک جو عورتوں کے حقوق کے دعوی دار ہیں انہیں نے بھی عورت کو اس کا اصل مقام نہیں دیا۔ عورت کو یہ ذہن نشین کرایا کہ تم مقصود بالذات نہیں ہو بلکہ تم مرد کی تفریح اور تسکین کے لیے پیدا کی گئی ہو اسی لیے عورت کو اشتہار بنا دیا گیا ہے۔ عورت کی حیثیت ایک Commodity اور ایک پر کشش چیز کی بنا دی گئی ہے اور وہ مردوں میں جاذب نظر بننے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتی ہے یعنی اسکی اپنی کوئی ذات ہی نہیں۔ مشرق میںعورت کا استحصال جبر کے ساتھ اور مغرب میں مکر کے ساتھ ہورہا ہے۔ سویڈن اور بہت سے اور یورپی ممالک میں عورتوں کی تنخواہ مردوں کی نسبت کم ہے۔ خواتین کے حقوق کے علمبردار ملک سویڈن میں آج تک کوئی عورت وزیر اعظم نہیں بن سکی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ میں اکیلی عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے بسر کرسکتی ہے ، ملازمت اور سفر بغیر کسی خدشہ کے کرسکتی ہے لیکن مشرقی معاشرہ میں یہ ممکن نہیں اور اس کی وجہ مردوں کا رویہ ہے۔ عورت کا اصل مسئلہ ہی مردوں کا رویہ اور جبر و تسلط ہے اور یہ تب ہی دور ہوگا جب بچپن سے ہی ہم اپنے بچوں کو عورت کی عزت کرنا سکھائیں گے اور انہیں یہ باور کرائیں گے کہ وہ بھی انسان ہے۔ تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ جب عورت کو موقع ملتا ہے تو بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ساس بھی تو عورت ہی ہوتی ہے جو اپنی بہو کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔اور بہوبھی عورت ہی ہے کہ بہت سے سسرال والوں کو دن میں تارے دیکھا دیتی ہے۔عورت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنی حیثیت کا ناجائیز فائدہ نہ اٹھائے اور گھر وہی جنت کا نمونہ ہوتا ہے جس میں سب اپنے حقوق و فرائض کو پورا کریں اور حد سے نہ بڑھیں۔
بہت درست تجزیہ کیا ہے عارف صاحب نے،عارف صاحب ہم ایک خواتین اسلام کو انکے حقوق و فرائض سے آگہی کے لئے ایک کانفرنس کرنا چاہ رہی ہیں ،کیا اپ اس سلسلے میں کوئی مشورہ دینا چاہیں گے کہ کس طرح کے پروگرام (موضاعات) سرگرمی رکھنی چاہیے۔؟
بہن آپ کا شکریہ کہ آپ کو میری تحریر پسند آئی۔ جلد ہی اسی سلسلہ کا ایک اور کالم
عورت اپنے خالق کی نظر میں
لکھنے کا ارادہ ہے جس مین یہ وضاحت کی جائے گی کہ قرآن نے عورت کے بارے میں کیا کہا ہے اور مرجہ مذہہبی تصورات کس قدر اس سے مختلف ہیں۔
ہم نے کافی عرصہ قبل سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کے تحت اسی نوعیت کا سیمینار کیا تھا۔ جو بہت مفید رہا۔
اپ کب یہ کانفرس منعقد کریں گی اور کیا یہ اوسلو میں ہوگی۔
ٓاپکے اکثر کالم بہت اچھے ہوتے ہیں یہ کالم جس نسبت یعنی خواتین کے عالمی دن پر لکھا ہے یہ ہمارے معاشرے کی زمہ داری ہے کہ آج اس بات پر توجہ دے کہ بچوں کی تربیت مین خواتین کا احتام اور برابری کا درس دیں اور بچوں کی پہلی درسگا چونکہ گھر سے شروع ہوتی ہے لہذا خواتین خود اپنی ذمہ داری کا احساس کریں تو کافی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔
آپ کا بہت شکریہ کہ آپ کو میری تحریریں پسند آتی ہیں۔ میری کوشش یہی ہے کہ ہمارے روز مرہ کے مسائل پر لکھا جائے اور بطور خاص ان موضوعات پر جن پر کم لکھا جاتا ہے۔ صحت مند تبدیلی کے لیے ہم کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔