مذہب کے نام پر اقلیتوں کا قتل
ڈاکٹرعارف کسانہ
سویڈن
سویڈش پاکستانی بھی دنیا میں مقیم دیگر پاکستانیوں کی طرح وطن عزیز میں مذہب کے نام پر اقلیتوں کے قتل عام اور انکے ساتھ ناروا سلوک پر مضطرب ہیں۔جس سے دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔چونکہ یہ سب بدقسمتی سے مذہب کے نام پر ہو رہا ہے اس لیے تمام مسالک کے سنجیدہ عناصر اس کی سنگینی کو محسوس کریںکہ کہیں ہم اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ کھلونا تو نہیں بنے ہوئے۔قرائن یہی کہ رہے ہیں کہ اسلام دشمن طاقتوں نے جیسا کہ ماضی میں لارنس آف عریبیااور ایم ایچ ہمفرے کی صورت اسلام اورمسلمانوں کو فرقہ واریت کو نقصان پہنچایا ہو ۔ویسی ہی تاریخ آج پھر دہرائی جا رہی ہے۔ان اسلام دشمنوںکو آلہ کار بھی خود مسلمانوں سے ہی مل رہے ہیں۔دینی علماء کا فرض ہے کہ قرآن کی ان تعلیمات کو بار بار سامنے لائیں جن میں یہ کہا گیاہے کہ ہر انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو قابل عزت ہے ۔ جس نے کسی بھی انسان خواہ اسکا کوئی بھی مذہب ہو کا قتل کیا ہو اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔٣٢،٥۔شرک کو قرآن سب سے بڑا جرم قراردیتا ہے۔اور غیر مسلموں کی وہ عبادت گاہیں جہاں شرک کیا جاتا ہے انہیں بھی رب کائنات یوں تحفظ دیتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقسان پہنچانا چاہے تو مسلمان حکم خدا وندی کے تحت ان کی حفاظت کریں۔٤،٢٢ ۔اور غیر مسلموں کے معبدوں کو بھی گالی نہ دیں۔ ١٠٨،٦۔تمام مکاتب فکر قرآن حکیم کو سپریم اتھارٹی قرار دیتے ہیں۔لہٰذا ان تعلیمات کو عام کر کے ان لوگوں کے ذہنوں کو صاف کریں۔جو مذہب کے نام پر قتل کرنے کو درست جانتے ہیں۔برداشت اور مذہبی آزادی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ نے تو قرآن حکیم میں حضور کریم ۖ کو فرمایا ہے کہ ہم نے آپ کو لوگوں پر جبراً عمل کرانے والا داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔بلکہ آپ کا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے۔جب حضور کو یہ حکم ہے تو ان لوگوں کو ضرور سوچنا چاہیے جو داروغہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔اور دوسروں کو ناحق قتل کر رہے ہیں۔انہیں ضرور سوچنا چاہیے شائید یہی سوچ بہتری کی طرف ایک قدم ہو۔