تحریر شازیہ عندلیب
موبائل کی اسکرین پر میں نے ایک میسج پڑھا اور میرے ذہن کی اسکرین پرایک منظر فلم کی طرح چلنے لگا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ فلم کل ہی ریلیز ہوئی ہو۔ہر طرف کان پھاڑ دینے ولا شور اور ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی خوفناک آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ بد مست ہاتھی ساٹھ ہزار فوج کے لشکر کے ساتھ ایک سمت میں بھاگے چلے جا رہے تھے۔راستے یں کئی لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی ایک قبیلے نے تو جنگ کی کوشش بھی کی انہیں تاوان کی پیشکش بھی کی لیکن اپنی طاقت کے نشے میں بد مست ابراہا نے کسی کی بات نہ سنی۔اس کے سر پر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ وہ خدا کے گھر کو نعوذباللہ ڈھا کر اپنے معبد کی طرف خلقت کو بلاناچاہتا تھا تاکہ لوگ وہاں جائیں اور اس کی تجارت بڑھے اور وہ دولتمند اور مزید طاقت ور بن جائے۔مگر اتنے بڑے ملک حبشہ کے بادشاہ کی عقل میں یہ چھوٹی سی بات نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس کے گھر کو ڈھانے جا رہا ہے اس مالک و خالق کائنات کے گھر کو جس نے خون کے ایک قطرے سے تجھے اور سارے انسانوں کو بنایا جس نے یہ دنیا اور اس سے بھی بڑی دنیائیں تخلیق کیں۔جس نے دیکھی ان دیکھی چیزیں بنائیں۔اور یہ کعبہ یہ تو انسانوں کو ایک مرکز پہ رکھنے کے لیے ایک نشانی بنا دی جسے رہتی دنیا تک رہنا ہے۔تو کیا اور تیری اوقات کیا ابراہا ۔۔وہ ابراہا تو ایک نشان عبرت بن کر رہ گیا پوری دنیا کے لیے ۔بھلاا س خالق کائنات کی شان کا کیا مقابلہ نعوزبااللہ ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے دیو ہیکل ہاتھیوں کی فوج کو ابراہا سمیت ننھے ننھے ابابیل نماء پرندوں کی چونچوں اور پنجوں میں دبی کنکریوں سے تباہ و برباد کر دیا۔اور یہ ابابیلیں جنہوں نے آج سے چودہ سو سال پہلے خانہ کعبہ کی حفاظت کی تھی آج بھی جب خانہ کعبہ کا دروازہ صفائی کی غرض سے کھولا جاتا ہے تو آسمان پر نمودار ہو جاتی ہیں۔یعنی کہ چودہ سو برس پہلے انہوں نے خانہ کعبہ پر حملہ آور فوجوں کی تباہی کی ڈیوٹی دی تھی اس کی پریڈ ابھی تک جاری ہے۔جی ہاں جب میں حج پر گئی تھی کچھ برس پہلے ت ووہاں پر موجود ایک خاتون نے یہ آنکھوں دیکھا منظر بتایا تو میرے ذہن کے کسی قدیم یاد داشت کی چپ پرمحفوظ وہ منظر ابھر آیا جب ابراہا نے خانہ کعبہ پر اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے لشکرکے ساتھ چڑہائی کر دی تھی ۔اور ابابیلوں کے جھنڈہاتھیوں کی فوج کو شکست دے کر انکابھوسہ بنا گئے تھے۔پوری فوج کھائے ہوئے بھس جیسی ہو گئی مگر دو ہاتھی بان زندہ رہے۔وہ نہ صرف زندہ رہے بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں کوڑہی کر کے نشان عبرت بنا کر آنے والے زانے تک زندہ رکھا۔اس بات کی گواہی حضرت بیبی عائشہ نے بھی دی ہے کہ انہوں نے مکہ کے گردو نواھ میں کوڑھ زدہ فقیروں کو دیکھا تھا۔جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ سرکار دو عالم کی ولادت با سعادت سے پہلے ابراہا کے ہاتھیوں کے لشکر کے ہاتھی بان تھے۔یہ ہے انسان اور اس کی حقیقت ۔یہ ہے اللہ اور اس کی شان!!آج جو لوگ قرآن کی بے حرمتی کے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیںن ۔اس کا ارادہ کر رہے ہیں تو یقیناً اللہ انہیں بھی دیکھ لے گا۔جلد یا بدیر ۔یقیناً اس کا حال بھی اپنے پیش رو ابراہا سے کچھ مختلف نہ ہو گا۔
ڈنمارک نے ہفتہ کے روز دنیا کی مقدس ترین کتاب قرآن حکیم کو جلائے جانے کے انتہائی ناپاک اور گھنائونے ارادے کا اعلان کیا ہے۔بے شک کوئی مومن کوئی مسلمان کوئی ملک اور کوئی بادشاہ اس عظیم اور مقدس کتاب کی حفاظت ایسے نہیں کر سکتا جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ۔پھر اللہ تعالیٰ نے تو خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔یہ کتاب اور اس کے الفاظ تو ہمیشہ رہنے والے ہیں۔اس مذموم حرکت کرنے سے قرآن کو نعوذباللہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ وقتی نقصان تو ہو سکتا ہے مگر قرآن کبھی مٹ نہیں سکتا مگر جو لوگ یہ کام کریں گے وہ ضرور مٹ جائیں گے۔شیطان کے یہ چیلے تو اپنے لیے جہنم کی آگ خرید رہے ہیں۔
ا س موقع پر مسلمانوں کو ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسلمان چپ سادھ کر خاموش تماشائی بنے رہیں۔ہر مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے دائرے میں رہ کر مقدور بھر احتجاج کی کوشش ضرور کرے مگر اشتعال میں نہ آئے۔اس لیے کہ ان حرکتوں کا مقصد ہی دراصل مسلمانوں کو اشتعال دلانا ہے ۔اگر مسلمان اشتعال میں آ گئے تو پھر شیطان کامیاب ہے اور اگر پر امن طریقے سے احتجاج کا طریقہ اپنایا تو یہ ملعون لوگ ناکام ہیں۔اب یہ فیصلہ ہر شخص کو اپنے دائرہ کار کے مطابق خود کرنا ہے کہ احتجاج کے لیے کون سا طریقہ اپنا یا جائے۔
احتجاج انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہو سکتا ہے۔ذیادہ موثر طریقہ اجتماعی ہے۔اسلام بھی اجتماعیت کی ہی دعوت دیتا ہے۔اس احتجاج میں ہر مسلمان کو حصہ لینا چاہیے۔سب سے پہلا احتجاج ڈینش پراڈکٹ کا بائیکاٹ ہے۔جب سے ڈنمارک نے توہین آمیز خاکے شائع کیے مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ سے ڈینش معشت کمزور ہو گئی ہے۔مگر انہوں نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر پابندی کے بجائے مزید توہین آمیز رویہ اختیار لیا ہے۔ہر احتجاج میں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ مختلف طریقوں سے اسلام کی توہین کر کے دنیا کے امن کوخراب نہ کیا جائے۔یہ احتجاج ڈینش پراڈکٹ کے بائیکاٹ کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے علاوہ اخبارات اور رسائل میں بھی کیا جا سکتا ہے۔جاب کی جگہ پر بازوئوں پر کالی پٹیاں لگا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔یہ احتجاج کا مہذب طریقہ ہے۔بے شک ہمارا ایمان ہے کہ اللہ قرآن پاک کی حفاظت ضرور کرے گا مگر یہ کتاب اتاری بھی تو ہمارای ہدائیت کے لیے گئی تھی۔اس لیے ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس بات پر احتجاج ہمارا حق ہے ۔مگر ایسی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہیے جس سے اسلام اور مسلمان قوموں کو نقصان پہنچے۔اس موقع پر ہمیںنبی پاک کے دادا حضرت عبدلمطلب اور نبی پاک کی مثال یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت عبدلمطلب نے ابراہا کے حملے کے وقت کس طرح ضبط سے کام لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اللہ کے حضور خانہ کعبہ کی حرمت کی دعا مانگی۔نبی پاک نے کافروں کی ایذا رسانی پر کس طرح صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور پھر فتح بھی تو نبی پاک کے حصہ میں ہی آئی تھی۔
فرانس میں ہونے والی دہشت گردی اسلامی طریقے کے منافی ہے۔کیونکہ اس سے دین اسلام اور مسلمانوں کا امیج تباہ ہوا ہے۔بے شک اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جس کا جی چاہے وہ آزادیء اظہار رائے کے نام پر ان کی دل آزاری کر دے۔یہ مہذب قوموں کا شیوہ نہیں کہ وہ کسی قوم یا مذہبی گروہ کے احساست و جذبات کو کچل دیں۔اگر مسلمان عیسائیوں یا کسی اور مذہبی پیشوائوں کا مذاق ا ڑائیں کسی بھی طرح تو کیا یہ لوگ خوش ہوں گے؟؟مذہبی پیشواء کو تو چھوڑیں اگر کسی کے والدین کا ہی مذاق اڑایا جائے خواہ اسکا تعلق کسی بھی ملک و ملت سے ہ اسکو کس قدر بر الگے گا۔تو اگر عظیم ہستیوں کی تضحیک مقدس کتابوں کی پامالی،و بے حرمتی کسی قوم کے خلاف اشتعال انگیزی کی جائے تو یہ تہذیب سے انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔ایسی قوموں اور افرد کو جو دوسروں کی دل آزاری کریں انہیں بھی تمغہ ملنا چاہیے۔جو تمغہء امتیاز اور امن نوبل پرائز کا متضاد ہو تاکہ وہ لوگ دنیا کے لیے نشان عبرت بن جائیں اور ہمیشہ اپنے ضمیر کی آگ میں جلتے رہیں۔
یہ جو مسلمانوں کی دل آزاری کے واقعات ہیں یہ تو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گے۔شیطان اور اس کے چیلے کبھی نچلے بیٹھنے والے نہیں۔آخر وہ دنیا میں کس لیے آئے ہیں۔انہوں نے تو اپنا کام کرنا ہے ۔لوگوں کو اپنا ساتھی بنانا ہے۔مسلمان ہمیشہ سے تعداد میں کم رہے ہیں مگر طاقت میں ذیادہ۔ وہ اس لیے کہ ان کا ایمان مضبوط تھا۔ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم دنیا میں کس لیے آئے ہیں؟ ہمیں کیا کرنا ہے؟اگر ہم قرآنی احکامات پر ذیادہ سے ذیادہ عمل کرتے تو ایسے واقعات کی نوبت کبھی نہ آتی لیکن یہ ہماری ہی کمزوریاں ہیں جس سے غیروں کو اتنی جرآت ہوئی ہے۔اب ہم سب کو متحد ہو کر احتجاج کرنا ہے مگر صبر تحمل کے ساتھ کہ ہمارے دین کو اس پہ چلنے والوں کو نقصان نہ پہنچے۔نبی پاک کے گستاخانہ خاکوں پر احتجاج قرآن کی بے حرمتی پر ڈینش پراڈکٹس کا بائیکاٹ ہر مسلمان کا حق ہے۔اسلام اسے اس کی
اجازت دیتا ہے مگر اسلام قتل و غارت گری کی اجازت نہیں دیتا بلکہ یہ امن کا پیغام دیتا ہے۔
Bohat acha likha aap ne Shazia.Hum sab musalmano ka yeh hi to almia ha k hum muthad nai hain.ALLAH PAK hum sab ko yeh sab kuch bardasht karne ka hosla den.
Aoa, Shazia ap ne tou meri chutti kra di qk essi mozun per mai likny wali ti acha lika aur khoob lika yahi baat hum
sab ko sumjni hogi k humary ishtial se in ki yellow journalism ko fayda hota hai…hum ko Nabi karim(saw) ki tera saber aur maslihat se kam lena hoga…
Good article, well written.
Hosla afzai ka shukriya Adnan.
Shazia