باعثِ افتخار۔ انجینیئر افتخار چودھری
یہ کیسی عجیب قوم ہے، جس کے پاس نہ طارق جمیل ہیں، نہ ساحل عدیم، نہ خلیل الرحمٰن قمر جیسے جذباتی مکالمہ نگار، نہ سجن سائیں، نہ میاں مٹھو، نہ حافظ، نہ مفتی، نہ مولوی، نہ ذاکر، نہ نعت خواں، نہ خطیب شعلہ بیان، نہ صاحبانِ جبہ و دستار، نہ سید، نہ چشتی، نہ بریلوی، نہ شیعہ، نہ وہابی، نہ دیوبندی۔ مگر پھر بھی دنیا میں سب سے آگے ہیں! ہمارے لیے شاید یہ حیران کن ہو، مگر ان کے لیے یہ ایک معمول کی بات ہے۔ جاپانی بچے جب اسکول میں قدم رکھتے ہیں، تو ان کے بستے میں ریاضی، سائنس یا انگریزی کے علاوہ سب سے پہلی کتاب اخلاقیات کی ہوتی ہے۔
انہیں سکھایا جاتا ہے کہ سچ بولنا زندگی کی سب سے بڑی امانت ہے، دوسروں کا احترام کرنا ان کا فرض ہے، اور دیانتداری ایک ایسا اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے گھروں میں جھوٹ کا درس نہیں دیا جاتا، انہیں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ مہمان آئے تو دروازے پر جا کر کہو “ابو گھر پر نہیں ہیں” یا اگر اسکول نہ جانے کا دل ہو تو پیٹ میں درد کا بہانہ بنا دو۔ بلکہ وہ تو وہی سبق دہراتے ہیں جو ہمارے اسلاف کا تھا، جو حضرت عبدالقادر جیلانی نے ڈاکوؤں کے سامنے دہرا دیا تھا، جس نے چوروں کو بھی ولی بنا دیا تھا۔
مگر افسوس! یہی سبق جو ہمارے لیے ورثہ تھا، وہ ہم نے کہیں کھو دیا۔ ہم نے اپنے بچوں کو جھوٹ سکھایا، منافقت سکھائی، دوغلا پن سکھایا، حرام کو حلال بنانے کے گر سکھائے، اور جب وہی بچے بڑے ہو کر کرپشن کرنے لگے، وعدے توڑنے لگے، دھوکہ دینے لگے تو ہمیں جاپان، یورپ اور دیگر اقوام کی ایمانداری پر حیرت ہونے لگی۔
یہ پوسٹ مجھے میرے پرانے دوست، جمعیت کے ساتھی حافظ حمید الدین عوان نے واٹس ایپ پر بھیجی تھی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر جاپانیوں نے کون سا سبق سیکھا ہے جو ہم نے نہیں سیکھا؟ میں کہتا ہوں، حمید الدین بھائی! وہی سبق جو ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا تھا، مگر ہم نے چھوڑ دیا۔ وہی راستہ جو ہمارے بزرگوں نے اپنایا تھا، مگر ہم نے پسِ پشت ڈال دیا۔
آج انجینیئر کامران حسن قریشی کا فون آیا۔ میں بہت پریشان تھا، میں نے کہا:
“یار! میں اتنا کچھ لکھتا ہوں، اتنا کچھ کرتا ہوں، مگر کیا کوئی پڑھتا بھی ہے؟ کیا یہ سب بے فائدہ ہے؟”
انہوں نے مجھے حوصلہ دیا، کہا:
“بھائی! لوگ پڑھتے ہیں، ہل کے رہ جاتے ہیں، مگر شاید تبصرہ نہیں کرتے، رائے نہیں دیتے۔ مگر آپ کی تحریریں سوچ کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔”
یہ جملے میرے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھے۔ میں نے حوصلہ پکڑا اور سوچا کہ میں اپنے قلم کے ذریعے معاشرے میں بہتری کی کوشش کیوں نہ کروں؟ گو کہ میرے الفاظ سے قیدی نمبر 804 تو رہا نہیں ہوگا، مگر ایک سوچ، ایک فکر ضرور زندہ رہے گی۔ میں وہی کام 9 مئی کے بعد بھی کر رہا ہوں، جو میں 1992 سے کر رہا ہوں۔ میں نے کبھی مصلحت کا شکار ہو کر سچ لکھنا نہیں چھوڑا، نہ ہی خوف زدہ ہو کر حق بات کہنے سے رکا۔میری تحریر کسی بے ضمیر کے لیے نہیں ہے میرا قلم کسی طاغوت کی مدح سرائی نہیں کرے گا۔
ہم نے جھوٹ سیکھا۔ گھر میں سکھایا کہ بیٹا دروازے پر کوئی مانگنے والا آجائے تو کہہ دینا کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔ بچہ جا کر یہی کہتا ہے کہ “ابو نے کہا ہے کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔” یعنی جھوٹ کو ہم نے اتنا عام کر دیا کہ خود کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ پھر یہی بچہ بڑا ہو کر دفتر میں “جناب، فائل گم ہوگئی”، “سر، بجلی چلی گئی تھی”، “جناب، بیمار تھا اس لیے کام نہیں کر سکا” جیسے بہانے گھڑنے لگتا ہے۔
اسی جھوٹ نے ہماری پوری سوسائٹی کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ آج ایک مزدور جھوٹ بول کر کام کرتا ہے، دکاندار جھوٹ بول کر مال بیچتا ہے، ڈاکٹر جھوٹ بول کر دوائی لکھتا ہے، وکیل جھوٹ بول کر کیس جیتتا ہے، جج جھوٹ بول کر فیصلہ کرتا ہے، سیاستدان جھوٹ بول کر ووٹ لیتا ہے، اور عالمِ دین جھوٹ بول کر دین کو کاروبار بنا دیتا ہے۔
یہی تو وہ سچ ہے جو ہم نے کبھی سیکھا ہی نہیں۔ 8 فروری کو قوم نے حق کی گواہی دی، مگر 9 اور 10 فروری کو اس کی گردن مروڑ دی گئی۔ اس ملک میں سچ بولنے والے ہمیشہ مشکل میں رہے، مگر جھوٹ بولنے والے، چاپلوسی کرنے والے، خوشامدی لوگ عروج پاتے رہے۔
میڈیا کی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ آپ دیکھ لیں، کچھ نام نہاد صحافی کس طرح سیاستدانوں کی جیبوں میں گھسے رہتے ہیں، کیسے حکمرانوں کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ ان کے جیسے درجنوں صحافی جن کا واحد کام یہ ہے کہ وہ حکومت کے مفادات کا دفاع کریں، اور اگر کوئی ان کی منافقت پر انگلی اٹھائے تو فوراً ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔
اخبارات کا حال دیکھ لیں۔ جو اخبار آپ کے گھر میں نہیں آتا، جو آپ کے محلے میں کوئی نہیں خریدتا، وہ پھر بھی چل رہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ حکومتی اشتہارات کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ ہر وزیر، ہر ایم این اے، ہر وزیرِ اعلیٰ کروڑوں روپے اشتہارات پر لگا دیتا ہے، بس اپنی تعریفوں کے پل باندھنے کے لیے۔
اور جب عوام کو صحت کی ضرورت پڑتی ہے، تو کوئی وزیرِ اعلیٰ ہسپتال کے ایم ایس کو برطرف کر کے سب اچھا ہونے کا ڈرامہ کرتا ہے۔ جیسے برطرفی سے مریضوں کا علاج شروع ہو جائے گا! حقیقت یہ ہے کہ ہسپتالوں میں دوائیاں ختم ہو رہی ہیں، ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں، مشینیں خراب پڑی ہیں، مگر اشتہارات میں سب کچھ بہترین دکھایا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ وہی لوگ چلا رہے ہیں جنہیں میڈیا میں بیٹھے ان کے خیر خواہ دن رات دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر لگے رہتے ہیں۔ ملک میں بیمار ہسپتال، اندھی عدالتیں، بہری حکومت، اور منافق صحافی ایک ایسا نیٹ ورک بنا چکے ہیں جس میں عوام صرف بیوقوف بننے کے لیے رہ گئے ہیں۔ کوئی اسمبلی میں بیٹھ کر جھوٹ بولتا ہے، کوئی پریس کانفرنس میں، اور کوئی ٹی وی اسکرین پر۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم جاپانیوں پر حیرت کرنے کے بجائے، ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنے گھروں میں، اسکولوں میں، مدرسوں میں سچ بولنے کی تعلیم دینی ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نماز اور روزے کے ساتھ دیانتداری بھی اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ ایمانداری صرف دوسروں سے مانگنے کی چیز نہیں، بلکہ خود پر لاگو کرنے کی چیز ہے۔
ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم صرف دوسرے ممالک کی ترقی پر حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہ جائیں گے، اور اپنی بربادی کا ماتم کرتے رہیں گے!
Recent Comments