کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل
ناروے کی ایک برفیلی صبح تھی۔ ہر چیز برف کی سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی، اور ہلکی ہلکی برفباری مسلسل جاری تھی۔ میرے شوہر کسی ضروری کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے، اور بڑے بچے پیرس میں اپنی موج مستی کر رہے تھے۔ میں گھر پر دونوں چھوٹے بچوں کے ساتھ تھی اور صبح کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھی۔ بچوں کو سکول بھیجنا تھا، خود دفتر پہنچنا تھا، اور برفیلے راستوں کی وجہ سے یہ سب ایک ایڈونچر سے کم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے، میں نے پہلے ہی پرنسپل مسٹر والٹر سے ایک گھنٹہ تاخیر کی اجازت لے رکھی تھی، کیونکہ ناروے کی سردیوں میں برفباری کے ساتھ وقت پر پہنچنا ہمیشہ قسمت پر منحصر ہوتا ہے۔
بچوں کو راستے میں حنان کے گھر چھوڑ کر میں اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئی۔ سڑک پر پھسلن بہت زیادہ تھی، اور میں ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھ رہی تھی اور ساتھ آیت الکرسی کا ورد بھی جاری تھا۔دو تین بار تو ایسا لگا کہ بس گری کے گری، مگر خدا کا شکر کہ بچت ہو گئی۔ اسٹیشن پہنچ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا اور برف سے بچنے کے لیے شیڈ کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں بس آئی، میں نے اس کا نمبر دیکھا اور آرام سے سوار ہو گئی۔
اسی لمحے میرے شوہر کی کال آ گئی، اور میں نے ایئر پوڈز لگا کر ان سے باتوں میں خود کو مصروف کر لیا۔ بس آہستہ آہستہ چل رہی تھی، باہر ہر چیز برف سے ڈھکی ہونے کی وجہ سے ایک جیسی لگ رہی تھی۔ عام دنوں میں بس کی اسکرین پر ہر اسٹاپ کا نام آتا تھا، مگر آج وہ بند تھی، اور صرف اسپیکر سے نام سنائی دے رہے تھے، جو کہ میرے ایئر پوڈز کے شور میں دب چکے تھے۔ میں نے بس یہی اندازہ لگایا کہ بیس منٹ بعد میں سکول کے اسٹاپ پر پہنچ جاؤں گی، اس لیے بے فکری سے شوہر سے گپ شپ جاری رکھی۔
کچھ دیر بعد، کھڑکی سے باہر دیکھتے ہی عجیب سا احساس ہوا۔ بڑی بڑی عمارتیں؟ میرے روزمرہ کے راستے میں تو ایسی عمارتیں نہیں آتیں! الجھن میں تھی کہ اچانک بس ایک جھٹکے سے رکی، اور سارے مسافر ایک ایک کر کے اترنے لگے اور ساری بس خالی ہو گئی۔میں حیرانی سے اردگرد دیکھ رہی تھی کہ ڈرائیور میرے قریب آیا اور بولا، “محترمہ، آپ اتر نہیں رہیں؟”
“یہ کون سا اسٹاپ ہے؟” میں نے گھبرا کر پوچھا۔
“اوسلو ایئر پورٹ!”
میرا دل ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔ میں تو مخالف سمت جانے والی بس میں بیٹھ گئی تھی!
ڈرائیور نے تسلی دیتے ہوئے کہا، “پریشان نہ ہوں، بس تھوڑی دیر میں واپس جائے گی۔”
میں نے فوراً پرنسپل مسٹر والٹر کو میسج کیا، “غلطی سے ایئر پورٹ والی بس میں بیٹھ گئی، اب پہنچنے میں مزید ایک گھنٹہ لگے گا!”
چند ہی لمحوں بعد ان کا جواب آیا، “کوئی مسئلہ نہیں، برفباری کی وجہ سے بسوں کے راستے میں اکثر مشکلات آتی ہیں۔”
میں نے شرمندگی سے لکھا، “یہ برفباری کی غلطی نہیں، میری آنکھوں کی ہے! بس کا نمبر تو دیکھا، مگر سمت نہیں!”
مسٹر والٹر نے فوراً ایک ہنسی والی ایموجی بھیج دی۔ یہ واضح تھا کہ وہ اس صورتِ حال سے خاصے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کم از کم کسی کا تو دن اچھا ہوا تھا!
خیر بس نے واپسی کا سفر اختیار کیا اور چالیس منٹ کی مسافت طے کر کے میں اپنے سکول پہنچ گئی۔
ایک ہفتے بعد میرے شوہر واپس آ چکے تھے اور میں ایک بار پھر صبح کی ہنگامہ خیزی میں الجھی ہوئی تھی۔ گھر سے نکلتے نکلتے دیر ہو گئی، اور میں نے جلدی سے شوہر سے کہا، “اب اپنی ڈرائیونگ کی مہارت دکھائیں اور مجھے فوراً اسٹیشن تک پہنچائیں!”
انہوں نے فاتحانہ انداز میں کہا، “فکر نہ کرو،ہمیشہ کی طرح میں آج بھی آپ کو وقت پر پہنچاؤں گا!”
جیسے ہی ہم اسٹیشن کے راؤنڈ اباؤٹ تک پہنچے، انہوں نے میری بس کو نکلتے دیکھا اور فوراً اطلاع دی، “تمہاری بس جا چکی ہے!”
“اسے فالو کریں اور مجھ اگلے سٹاپ پر چھوڑ دیں ۔” میں نے جوش میں کہا۔
انہوں نے بس کے پیچھے گاڑی ڈال دی، مگر تھوڑی ہی دیر میں بس نے ایک اور موڑ لیا اور مخالف سمت میں چلی گئی۔
“یہ تو ایئر پورٹ جا رہی ہے!” میں نے فوری اعلان کیا، جیسے میں بسوں کے راستوں کی ماہر ہوں۔
انہوں نے مجھے تعریفی نگاہوں سے دیکھا، “بالکل، اورآپ کی بس اسی وقت اسٹیشن پر کھڑی تھی لیکن اب وہ سٹاپ سے نکل رہی تھی!”
میں نے برجستہ کہا، “اب اسٹیشن کی بجائے مجھے اگلے اسٹاپ پر اتار دو!”
انہوں نے کہا کہ تعمیل ہوگی بیگم صاحبہ!
جب میں سٹاپ پر اتری، تو میرے سکول کے کئی طلبہ پہلے سے وہاں کھڑے تھے۔ آشا نے حیرانی سے پوچھا، “آج یہاں کیسے؟”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا، “آج اسٹیشن سے بس مس ہو گئی، اس لیے یہاں سے پکڑ رہی ہوں!”
چند لمحوں بعد بس آئی، اور میں بخیر و عافیت سکول پہنچ گئی۔
بعد میں، میں نے خود کو تسلی دی کہ زندگی تجربات کا دوسرا نام ہے۔ مگر سچ کہوں تو، یہ تجربات کچھ زیادہ ہی ہو رہے تھے۔
اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بس میں سوار ہونے سے پہلے نمبر دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سمت بھی ضرور دیکھوں گی۔ اور پلیٹ فارم نمبر بھی دیکھنا چاہیئے۔ دو اور تین میں فرق ہوتاہے آخر! اور اگر کبھی غلطی سے ایئر پورٹ والی بس میں بیٹھ گئی تو مسٹر والٹر کو پہلے سے بتا دوں گی تاکہ وہ سکون سے اپنی ہنسی کا انتظام کر سکیں!
واہ جناب کمال کر دیا آپ نے ادھوری معلومات پر ایک خوبصورت کہانی بنا کر کیا کہنے جناب کے