اسامہ بن لادن دنیا کا وہ کردار ہے جس نے عالمی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جنہوں نے مختلف ممالک کی ترجیحات کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ ان کے متعلق ان کا خاندان آج تک خاموش رہا تاہم اب پہلی بار ان کی والدہ منظرعام پر آ گئی ہیں اور ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے اسامہ بن لادن کی والدہ عالیہ غنیم نے کہا ہے کہ” اسامہ بچپن میں بہت سلجھا ہوا اور اطاعت شعار بچہ تھا۔ وہ پڑھائی میں بہترین تھا۔ اس کی عمر جب 20سال کو پہنچی تب اسے کچھ لوگ ملے جنہوں نے اس کی برین واشنگ کی اور وہ راستے سے بھٹک گیا۔ وہ ریاض کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھ رہا تھا۔ اس کی برین واشنگ دراصل وہیں سے شروع ہو گئی تھی۔ یونیورسٹی میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اسامہ کو بالکل بدل دیا تھا۔ یونیورسٹی جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ بالکل مختلف انسان بن گیا تھا۔ یونیورسٹی میں اسے برین واش کرنے والوں میں ایک شخص کا نام عبداللہ اعظم تھا جسے بعد میں سعودی حکومت نے ملک بدر کر دیا تھااور وہ اسامہ کا روحانی مشیر بن گیا تھا۔ یونیورسٹی میں ہونے والی اس برین واشنگ کے بعد اسے وہ لوگ ملے جنہوں نے اسے مکمل طور پر راستے سے بھٹکا دیا۔ آپ ان لوگوں کو ایک فرقہ کہہ سکتے ہیں۔ اسامہ کی صورت میں ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے رقم مل گئی تھی۔ میں اسے ہمیشہ کہتی تھی کہ وہ ان لوگوں سے دور رہے۔ اس نے کبھی مجھے نہیں بتایا تھا کہ وہ گھر سے باہر کیا کر رہا ہے کیونکہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔“
رپورٹ کے مطابق عالیہ غنیم جدہ میں اپنے دو بیٹوں احمد ، حسن اور اپنے دوسرے شوہر محمد العطاس کے ہمراہ ایک عالی شان گھر میں رہائش پذیر ہیں۔اسامہ کی پیدائش کے تین سال کے بعد انہوں نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے لی اور محمد العطاس سے شادی کر لی تھی۔انٹرویو میں انہوں نے اپنے شوہر العطاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”انہوں نے اسامہ کی تب سے کفالت کی ہے جب وہ 3 برس کا تھا۔ اسامہ اور العطاس کا باہمی تعلق بہت اچھا تھا۔ نوجوانی میں برین واشنگ کیے جانے پر وہ 80ءکی دہائی کے آغاز میں روسی قبضے کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے افغانستان چلاگیا۔ اس نے اپنا سارا پیسہ افغانستان میں ہی لگا دیا جو اس نے خاندانی کاروبار سے چرایا تھا۔ میرے ذہن میں کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا کہ میرا بیٹا جہادی بھی بن سکتا ہے۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں بہت پریشان ہو گئی،میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسا کچھ بھی ہو۔میں نے اسے 1999ءمیں آخری بار دیکھا تھا۔تب ہم خاندان کے لوگ قندھار میں اسے ملنے گئے تھے۔ یہ جگہ ائیر پورٹ کے قریب تھی جہاں سے انہوں نے روسی قبضہ ختم کیا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اسامہ بے حد خوش ہوا تھا۔ ہم جتنے دن بھی وہاں رہے اس نے ہمیں سیر کروائی ، اسامہ نے ایک جانور کا شکار کیا اور ہم سب نے مل کر کھانا کھایا۔“
اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی احمد نے بتایا کہ ”17 سال ہو گئے لیکن ہماری والدہ کو ابھی تک اسامہ کے دور جانے اور اس کی موت کا یقین نہیں آتا۔وہ اس سے بے حد محبت کرتی تھیں اسی لیے اسامہ کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے وہ اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو اس سب کا ذمہ دار مانتی ہیں۔ وہ صرف اسامہ کا ایک ہی روپ جانتی ہیں، وہ اچھا روپ جو ہم سب نے دیکھا تھا۔ انہوں نے کبھی اسامہ کو جہادی کے طور پر نہیں دیکھا۔نائن الیون کے حملے کا سن کر ہم سکتے میں آگئے تھے، ہمیں اسامہ سے تعلق پر شرمندگی ہونے لگی، ہمیں معلوم تھا کہ ہمیں اس کے بھیانک نتائج بھگتنا ہوں گے ۔ نائن الیون کے سانحے کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر ہی شام ، لبنان ، مصر ،امریکہ اور یورپ میں مقیم ہمارے خاندان کے تمام افراد واپس سعودی عرب آ گئے۔سابق ولی عہد محمد بن نائف کے ہمارے خاندان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے جس پر انہوں نے اسامہ کی اہلیہ اور بچوں کو واپس سعودی عرب آنے کی اجازت دی۔ اب انہیں شہر میں گھومنے کی اجازت تو ہے لیکن وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔“ یہاں عالیہ غنیم گویا ہوئیں اور بتایا کہ ”میری اسامہ کے خاندان سے اکثر بات ہوتی رہتی ہے، وہ پاس ہی رہتے ہیں۔“