برزخ یا عالم برزخ کے بارے میں ہر مسلمان جانتا ہے، مگر اس کے متعلق مکمل تفصیل بہت کم لوگ ہی جانتے ہوں گے۔ ویب سائٹ پڑھ لو کے مطابق برزخ کے معنی ’پردے‘ اور’ دو چیزوں میں حد یا رکاوٹ‘ کے ہیں۔یہ موت کے بعد سے قیامت تک کے وقفے کا نام ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں سورة المومنون میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ”یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو)وہ کہے گا ائے میرے رب! مجھے (دنیا میں)واپس بھیج دے تاکہ میں اس (دنیا )میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ہر گز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت)کہہ رہا ہو گااور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل)ہے (جس دن)وہ (قبروں سے)اٹھائے جائیں گے۔“اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے درمیان کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔
عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخرت کے ساتھ۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عزیزواقارب میت کے ثواب کے لیے صدقہ و خیرات اور ذکر اذکار کرتے ہیں۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت وسکون ملتا ہے۔ جبکہ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو جزاءیا سزاءبرزخ میں شروع ہوتا ہے وہ آخر میں ملنے والی جزاءیا سزا ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سورة غافر میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ”(اور عالم برزخ میں بھی)ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔
علماءکرام عالم برزخ کے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ ایک جہان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے تک کے لیے بسارکھا ہے۔ یہ ہماری اس دنیا سے اتنا زیادہ وسیع ہے جتنی کہ یہ دنیا ماں کے پیٹ سے زیادہ وسیع ہے۔ اس جہان میں ایمان و کفر اور اطاعت و معصیت کا اثر آنکھوں سے نظر آ تا ہے۔یعنی وہ چیزیں جو ہم اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے، عالم برزخ میں وہ چیزیں ہمیں نظر آئیں گی جن میں ہمارے اعمال بھی شامل ہیں۔ علماءکرام شرعی حوالوں سے بتاتے ہیں کہ عالم برزخ کی ابتداءمنکر و نکیر کے سوالات سے ہوتی ہے۔ جب رشتہ دار اور دوست احباب میت کو قبر میں رکھ کر واپس لوٹتے ہیں اور روح انسانی جسم کی طرف واپس لوٹائی جاتی ہے تو منکر و نکیر بحکم خداوندی قبر میں آ کر مرنے والے سے سوالات کرتے ہیں۔ ان کا پہلا سوال ہوتا ہے کہ ’تیرا رب کون ہے؟‘ اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں ’تیرا دین کیا ہے؟‘اگر مرنے والا ان سوالات کے صحیح جوابات دے دے تو پھر آسمان کی طرف سے ایک آواز دینے والا کہتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا۔ اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دو، پس جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہاں کی خوشبوئیں اور ٹھنڈی ہوائیں آنے لگتی ہیں۔ لیکن اگر مرنے والا کافر یا منافق ہے تو وہ فرشتوں کے سوالوں کے جوابات نہیں دے پاتا اور اس کے لیے جہنم کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔