انڈونیشیا کے ساحلی علاقوں میں گزشتہ دنوں پہلے خوفناک زلزلہ آیا اور اس کے بعد تباہ کن سونامی نے بچی کھچی بستیوں کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ اس دوہری آفت نے غم و الم کی بے شمار کہانیاں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں، مگر شاید سب سے دردناک کہانی اُن معصوم بچوں کی ہے جو اب اس دنیا میں تنہا اور بے سہارا رہ گئے ہیں۔
ویب سائٹ mirror.com نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 500 میل فی گھنٹہ کی خوفناک رفتا رسے آنے والے سونامی کی لہروں نے ان بچوں کے گھر برباد کردئیے ہیں اور ان کے عزیز رشتہ دار اس تباہی میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اب یہ بے سہارا سڑکوں پر پھرتے ہیں۔ ان کے پاس کھلونے نہیں رہے، ان کے سکول تباہ ہوگئے ہیں اور حتیٰ کہ ان کے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے۔
تباہ شدہ علاقوں کے کمسن بچوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو زلزلے اور سونامی کے 10 دن بعد بھی لاوارث اور بے سہارا سڑکوں پر پھررہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو گتے کے ٹکڑوں پر اپنی مدد کی درخواست لکھ کر سڑک کنارے کھڑے نظر آتے ہیں تاکہ کوئی ان کی مدد کرے اور کھانے پینے کے لئے انہیں کچھ دے جائے۔ سڑکوں کے کنارے یہ بچے خالی ڈبے لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ کوئی ان میں کھانے پینے کی چیز ڈال دے۔
یہ دردناک مناظر علاقے سے گزرنے والی تقریباً 46 میل لمبی سڑک کے کنارے جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ بچے بھوک پیاس سے ایسے بے حال ہوتے ہیں کہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سڑک کے درمیان میں کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ کسی گاڑی کو روک کر کچھ کھانے کو مانگ سکیں۔
زلزلے اور سونامی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ 66 ہزار سے زائد کو نقصان پہنچا ہے۔ اب تک جمع کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق 5ہزار سے زائد لوگوں کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے، مزید ہزاروں بے گھر اور بے سہارا ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد بے گھر افراد کے لئے بنائے گئے تقریباً 150 کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔