افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالنےکےبعد یورپ کےاپنےپہلےدورے پرطالبان نےاوسلو میں مغربی سفارت کاروں کےساتھ افغانستان میں انسانی بحران پر تاریخی گفتگو کی،طالبان حکومت کے وفد نے اس ملاقات کو اپنے آپ میں ایک کامیابی قرار دیا تاہم بین الاقوامی برادری نے اصرار کیا ہے کہ امداد کی بحالی سے پہلے طالبان کو افغانستان میں انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے، جہاں بھوک کی شکار نصف سے زائد آبادی خطرے میں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ناروے کی جانب سے متنازع دعوت قبول کرنے کے بعد طالبان نے امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، یورپی یونین اور ناروے کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔یہ ملاقات اوسلو کے باہر برفانی پہاڑی کی چوٹی پر واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہوئی، طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے تھے جنہوں نے اس حقیقت کو سراہتےہوئےکہاکہ یہ ملاقات اپنے طور پر ایک کامیابی ہے۔
امیر خان متقی نے صحافیوں کو بتایا کہ ناروے کی جانب سے ہمیں یہ موقع فراہم کیا جانا اپنےآپ میں ایک کامیابی ہے کیونکہ ہم وہاں دنیا کے ساتھ ایک سٹیج پر موجود تھے۔انہوں نےکہا کہ ان ملاقاتوں سے ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون فراہم کیا جائے گا۔افغانستان کی انسانی صورتحال گزشتہ اگست کے بعد سے بہت زیادہ ابتر ہو گئی ہے،جب طالبان نے 20 سال بعد اقتدار دوبارہ سنبھالا، بین الاقوامی امداد اچانک رک گئی، شدید خشک سالی کے سبب پہلے ہی بھوک کا شکار لاکھوں لوگوں کی حالت زار مزید ابتر ہوگئی۔