“اِن کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ تو بہت پاکیزہ بنتے ہیں!” (سورہ الاعراف: 82)

May be an illustration

ایک لومڑی پر پتھر گرا اور اس کا دم کٹ گیا۔
دوسری لومڑی نے اس سے پوچھا:
“تم نے اپنا دم کیوں کٹوا دیا؟”
پہلی لومڑی نے جھوٹ بولا اور کہا:
“مجھے لگتا ہے جیسے میں ہوا میں اڑ رہی ہوں، یہ بہت مزے کی بات ہے!”
یہ سن کر دوسری لومڑی نے بھی اپنے دم کو کٹوا دیا، لیکن جب اسے شدید تکلیف ہوئی اور کوئی مزہ محسوس نہ ہوا، تو اس نے پہلی لومڑی سے پوچھا:
“تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟”
پہلی لومڑی نے کہا:
“اگر میں نے تمہیں سچ بتا دیا تو باقی لومڑیاں اپنے دم نہیں کٹوائیں گی اور وہ ہم پر ہنسیں گی۔”
پھر وہ دونوں ہر لومڑی کو اپنے دم کٹوانے کے فائدے بتانے لگیں، یہاں تک کہ زیادہ تر لومڑیاں دم کے بغیر ہو گئیں۔
اب جب وہ کسی لومڑی کو دم کے ساتھ دیکھتے، تو اس کا مذاق اڑاتے!
کہانی کا سبق:
جب معاشرے میں فساد عام ہو جاتا ہے، تو نیک لوگوں کو ان کی نیکی پر طعنے دیے جاتے ہیں۔
برے لوگ ان کی بہتری کو مذاق اور طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔
قرآن بھی ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے، جیسا کہ قوم لوط نے کہا:
“اِن کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ تو بہت پاکیزہ بنتے ہیں!” (سورہ الاعراف: 82)
حقیقت:
جب بدی غالب آ جائے، تو اچھائی پر طنز اور نیکی کو عیب سمجھا جانے لگتا ہے۔
ہمیں حق پر ثابت قدم رہنا چاہیے، چاہے دنیا کتنی ہی طنز کرے یا مخالفت کرے

اپنا تبصرہ لکھیں