قصائی سے اچھا گوشت لینا ہے تو اُسکی نفسیات سمجھنا ہوگی کیونکہ وہ آپکی نفسیات سے بخوبی واقف ہے۔ عوام کی اکثریت قصائی کو جا کر کہتی ہے کہ “بھیا ایک کلو گوشت دینا” یہ جملہ سنتے ہی اُسے سمجھ لگ جاتی ہے کہ میرے پاس اب فری ہینڈ ہے۔ وہ تھوڑی سی بوٹی ران سے اُتارتا ہے، بغل میں رکھے چھیچھڑے اور چربی ڈالتا ہے، دو چار پسلیاں مکس کرتا ہے اور ایک کلو کا شاپر آپکو تھما دیتا ہے۔ اس مکس اچار کی کوئی ڈھنگ کی ڈش بھی نہیں بنے گی۔
اسکے برعکس اگر آپ جاتے ہی کہیں کہ بھیا بونگ کا پیس دکھاؤ۔ دستی پڑی ہے؟ پُٹھ کی کیا صورت حال ہے؟ تو اُسے فوراً سمجھ لگ جائیگی کہ اُسکا واسطہ کسی کُوڑھ یا عطائی سے نہیں پڑا بلکہ سامنے ایک باریک آدمی کھڑا ہے لہذا سمبھل کر ہینڈلنگ کرنا ہوگی۔ ہمیشہ گوشت کا پورا پیس تلوائیں۔ چھوٹے بڑے ہر طرح کے پیس ہوتے ہیں۔ اڑھائی تین کلو لینا ہے تو بونگ بن جائیگی۔ کلو لینا ہے تو دستی طلب کر لیں۔ اگر لازمی ران ہی لینی ہے تو پھر بعد از دوپہر قصائی کے پاس جائیں کیونکہ ران وہ سب سے آخر میں بیچتے ہیں۔ وہ انکا شوپیس ہوتا ہے اگر آپ صبح صبح جا کر ران طلب کرینگے تو وہ بس ایک چھلکا سا ران کا اُتار دینگے اور باقی بی گریڈ سامان شامل کر دینگے لیکن جب سب سے آخر میں صرف ران ہی ران باقی ہوگی تو ظاہر ہے اُسے بیچنا ہی ہوگا۔
پاکستان میں گوشت کو پانی لگا کر اِسکا وزن بڑھانے کا قبح فعل عام ہے۔ پہلے پہل تو قصائی صرف گیلا کپڑا گوشت پر لپیٹا کرتے تھے مگر اب باقاعدہ کمپریسر کے ساتھ گوشت کی نسوں میں پانی انجیکٹ کیا جاتا ہے جس سے وزن ڈبل ہو جاتا ہے۔ جب آپ گھر آ کر گوشت ہانڈی میں ڈالتے ہیں تو ہانڈی پانی سے بھر جاتی ہے اور بوٹیاں سکڑ کر چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ یاد رکھیئے ران وہ جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ پانی جذب ہوتا ہے۔ کوشش کیجیئے کہ ران سے اجتناب برتا جائے۔ ہڈی والا گوشت ایک تو ذائقے دار ہوتا ہے دوسرا اسمیں پانی کی مقدار نسبتاً کم ہوتی ہے۔
گوشت ایک لگژری ہے۔ لوگوں کی اکثریت اسے بمشکل افورڈ کرتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جب آپ مشکل سے کمائے پیسوں سے گوشت خرید کر اپنے بچوں کے لئے گھر لیکر جائیں تو بہتر سے بہترین چیز ہو۔ آپکا پیسہ برباد نہ ہو۔
تحریر۔۔۔ ابن اعوان

واہ ابن اعوان صاحب کتنی اچھی اور منفرد رہنمائ تحریر ہے اس پہلو پر تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ گوشت خریدنا بھی پاکستان میں ایک تکنیک ہے بہت خوب ۔۔۔
ہمیں اسی طرح دیگر چیزوں کے لیے بھی رہنمائ تحریریں چاہیں۔۔۔۔