برصغیر کی علاقائی سپر پاور کا خاتمہ

پاکستان سے عسکری سطح پر مناقشے کے نتیجے میں بھارت کو عالمی برادری کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دو لڑاکا طیاروں کی تباہی اور ایک پائلٹ کی گرفتاری نے علاقائی سپر پاور ہونے کا سارا بھرم ختم کردیا۔ مگر خیر یہ تو ۲۷ فروری کی بات ہے۔ اس سے بہت پہلے بھارت کے تجزیہ کار اور صحافی یہ کہنے لگے تھے کہ بھارت کو علاقے میں جو بالا دستی کسی نہ کسی طور میسر تھی وہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ بھارت کو اپنے پڑوسیوں کا وہ اعتماد حاصل نہیں رہا، جو چند برس پہلے تھا۔ اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خطے میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کو نئی دہلی کے پالیسی ساز نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ مضمون اِسی تناظر میں پڑھا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو تین برس سے معاملات کچھ عجیب شکل اختیار کرگئے ہیں۔ خطے میں چین کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک میں چینی قیادت کے نقوشِ قدم آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے خود کو بڑے پیمانے پر منوانے کی بھرپور تیاری کر رکھی ہے۔ وہ غیر معمولی حد تک فعال ہوچکا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارت کو انتہائی کمزور سمجھ لیا جائے۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں علاقائی سپر پاور کی حیثیت سے بھارت کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ چین جو کچھ بھی کر رہا ہے اُسے بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا جارہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت کے پڑوس میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ بنگلادیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے ملا جلا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ بنگلادیش میں بھارت نواز حکومت ہے۔ نیپال کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ سری لنکا کا معاملہ بھی نمایاں طور پر بھارت کے حق میں نہیں۔ مالدیپ میں صدر عبداللہ یامین نے اپوزیشن سے تعلقات کشیدہ ہوجانے پر ہنگامی حالت نافذ کر رکھی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھوٹان میں اب آواز اٹھ رہی ہے کہ بھارت پر انحصار کم کیا جائے۔

ایسا نہیں ہے کہ بھارتی میڈیا نے یہ سب کچھ نظر انداز کر رکھا ہے۔ بھارتی میڈیا نے تمام تبدیلیوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ پرنٹ، ٹی وی اور آن لائن (سوشل میڈیا) سے یہ تاثر ابھر رہا ہے یا ابھارا جارہا ہے کہ بھارت اپنے پڑوسیوں سے (یعنی اُن کی حمایت اور محبت) محروم ہوتا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ چین ہر معاملے میں بھارت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور یہ کہ اس پر غیر معمولی حد تک بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا میں کچھ لوگوں کی باتوں سے یہ تاثر بھی سامنے آرہا ہے کہ بھارت گِھرتا جارہا ہے، ڈوب رہا ہے اور یہ کہ چین ہر معاملے میں اُس سے بازی لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس حوالے سے تمام معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان، سری لنکا اور میانمار کے سوا تمام ہی پڑوسیوں سے بھارت کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ ان تعلقات میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ تجارت کے حوالے سے ایک دوسرے پر انحصار کیا جاتا رہا ہے اور سفارت کاری کے میدان میں بھی بھارت اپنے بیشتر پڑوسیوں سے ہم آہنگ ہوکر چلتا رہا ہے۔ دفاع کے علاوہ ثقافت، سیاحت اور دیگر شعبوں میں بھی بھارت اپنے بیشتر پڑوسیوں سے ہم آہنگ ہوکر چلتا رہا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا بہت عجیب لگتا ہے کہ بھارت علاقائی سطح پر برتری سے محروم ہوچکا ہے۔

یہاں چند امور کا خیال رکھنا لازم ہے۔

۱۔ بھارت نے اپنے پڑوسیوں کے ہاں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ بنگلادیش میں فوجی آمریت ختم کرکے جمہوریت کو پروان چڑھانے میں بھی بھارت کا نمایاں کردار رہا ہے۔ نیپال میں بادشاہت اب جمہوریت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کل تک نیپال بادشاہت کے تحت جینے والا ملک تھا مگر اب جمہوریہ ہے۔

۲۔ کئی ممالک کے حوالے سے بھارت کا معاملہ یہ رہا ہے کہ وہ بھارت نواز کہلاتے ہیں۔ ان ممالک کی سیاست میں بھارت ایک فیصلہ کن عامل کے طور پر کارفرما رہا ہے۔ بیشتر پڑوسیوں کی سیاست اور اہم سیاسی فیصلوں میں بھارت کو اہم عامل کی حیثیت سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

۳۔ بھارت کے بیشتر پڑوسی اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر فیصلوں پر بھارت کا اثر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بہت سے فیصلے حالات کے دباؤ کے تحت اور مصلحت کے ہاتھوں بھارتی پالیسیوں سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ انہیں بھارت نے ایسے فیصلوں پر مجبور کیا ہوتا ہے۔ بعض ممالک جب حالات سے مجبور ہوکر بھارت کے خلاف جانے والے فیصلے کرتے ہیں تب یہ تاثر ابھرتا ہے کہ بھارت سے ان کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بھارت کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا مگر پھر یہ آواز ابھرتی ہے کہ بھارت محض تماشا دیکھ رہا ہے، کچھ کر نہیں رہا۔ اور اگر بھارت کچھ کر گزرے تو اس پر دوسروں کے معاملات میں مخل ہونے کا الزام عائد کیا جانے لگتا ہے۔

۴۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علاقائی معاملات میں اب چین اپنا کردار کھل کر ادا کر رہا ہے۔ وہ بیشتر امور میں اپنی موجودگی نمایاں طور پر ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بنگلادیش، سری لنکا اور مالدیپ کی چین نے بھرپور مالی معاونت کی ہے۔ تجارت بھی بڑھائی ہے۔ سرمایہ کاری کا دائرہ بھی وسعت اختیار کر رہا ہے۔ ان ممالک کو چین اسلحہ اور متعلقہ ٹیکنالوجی بھی دے رہا ہے۔ ان تمام ممالک میں چین کے نقوشِ قدم واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارت کے لیے کھیل ختم ہوچکا ہے۔

یہ بات بھی نہیں کہی جاسکتی کہ بھارت کو اب دوڑ دوڑ کر چین کے برابر آنا پڑ رہا ہے اور نہ ہی یہ کہنا درست ہوگا کہ بنگلادیش، سری لنکا اور نیپال میں چین ہر اعتبار سے بھارت کا نعم البدل بن کر ابھرا ہے۔ بہت زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ نیپال اور بھوٹان سے بھارت کے تعلقات اب بھی بہت اچھے ہیں۔ نیپال اور بھارت کے درمیان اب بھی اوپن بارڈر ہے۔ کم و بیش دس لاکھ نیپالی ورک پرمٹ کے بغیر بھارت میں کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی حکومت اب بھی ایک لاکھ ۲۷ ہزار گورکھا (نیپالی) سپاہیوں کو پنشن ادا کر رہی ہے۔ بنگلادیش، سری لنکا اور مالدیپ میں بھارت نے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے والے متعدد منصوبے مکمل کیے ہیں۔ خطے کی سلامتی کے حوالے سے بھی بھارت ان تمام ممالک کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے۔ اس حوالے سے نیپال اور بھوٹان کا بھی بہت حد تک بھارت ہی پر انحصار رہا ہے۔ بھارت نے بنگلادیش سے سرحدی تنازع ختم کرلیا ہے۔ وہاں بھارتی سرمایہ کاری کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی ہے۔ بھارتی حکومت نے بنگلادیش، سری لنکا اور نیپال میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے توانائی اور تعلیم کے شعبوں میں اشتراکِ عمل پر بھی خاصی توجہ دی ہے۔ سری لنکا میں ریلوے نیٹ ورک کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر غیر معمولی توجہ دی گئی ہے۔ دوسری طرف بنگلادیش میں توانائی کے متعدد منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ بنگلادیش میں بھارت کے تعلیمی اور ثقافتی اثرات بھی غیر معمولی ہیں۔

صرف ایک معاملے میں بھارت کو احتیاط برتنا ہوگی۔ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۰ء میں بھارتی پالیسیوں سے یہ تاثر ملا کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے پر بھارت کو غیر معمولی توجہ دینی چاہیے۔ آج بھی کسی پڑوسی کو بھارت کا ہم نوا قرار دیا جاتا ہے اور کسی کو بھارت مخالف۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو اس حوالے سے خاص احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ ان دو انتہاؤں کے ہاتھوں خطہ عدم توازن سے دوچار رہتا ہے۔

(ترجمہ و تلخیص: محمد ابراہیم خان)

اپنا تبصرہ لکھیں