ب
ہمارے اکثر اردو دوست جب کسی اخبار یا پورٹل کے مالک یا ایڈیٹر بن جاتے ہیں تو شاید اپنی پہلی اور اندرونی سوچ کو بھی بھول جاتے ہیں، کہ ابھی تک جو انہوں نے اِس میدان رہ کر سیکھا ہے، اُسی کو تو بھنانے(Cash)کی کوشش کر رہے ہیں؟ اور ہماری سوچ کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو عمارت کتنی پائیدار ہو سکتی ہے، اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہم یہ رائے اِس لئے قائم کر رہے ہیں کہ ہم خود بھی اُسی پیشے سے برسوں روزی کماتے رہے ہیں۔ اب ہم نے کئی دوسرے پیشے بھی اپنا لئے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کی سوچ تقریباً ایک سی ہوتی ہے۔ بہت کم ایسے نقاط یا طریقے ہیں جس میں ہم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم ہائیر سیکنڈری میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ترقی کرنے لگتی ہیں۔ ہم اپنے سامنے ہونے والے حالات و واقعات کی روشنی میں موازنہ یا مقابلہ کرتے ہیں۔ نتیجہ وہی آتا جو اکثر لوگ حاصل کر پائے ہیں۔پھر جب پریکٹیکل لائف میں جاتے ہیں تو بھی وہاں ہمارے سوچنے کا انداز وہی پرانا رہتا ہے جیسا کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو کرتے دیکھا ہے۔ جیسے کہ شادی، بچے، تربیت، تعلیم، گھر اور روزگار۔ جو ہم نے دیکھا یا جو بزرگوں نے مشورہ دیا وہی ، باقی سب بے کار یا غیر مفید۔ بزرگوں کا ایک تجربہ عام ہے کہ ’’میاں ہم نے دنیا دیکھی ہے، تم تو ابھی۔۔۔۔۔‘‘ کسی خاندان کا کوئی نوجوان ایک کوئی نیا فارمولہ یا طریقہ پیش کرتا ہے، یا کوئی نیا کام کرتا ہے تو اسے چہار جانب سے تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سے اکثر نوجوان اپنے ارادے کو ترک کرکے اپنے بزرگوں کے پرانے طریقے پر چلے جاتے ہیں، اور وہی کچھ حاصل کر پاتے ہیں، جو انہوں نے حاصل کیا، اُن سے تھو ڑا بہتر یا کمتر۔ اگر دل ودماغ صحیح سمت میں ہے تو یہ کہہ کے گزارا کر لیا کہ ’’اللہ کا شکر ہےجی، میرا مقدر ہی اتنا تھا‘‘ اور دل و دماغ منفی سوچ کا حال ہے تو میرا نقصان فلاں کی وجہ سے ہوا ہے۔ یا فلاں نے ہمارے کام میں رخنہ ڈالا۔ وغیرہ۔
اکثر لوگ جو ملازمت یاروزگار کے سلسلے میں دوسرے شہروں کا رُخ اختیار کرتے ہیں، کرایہ کے مکان میں گزارا کرتے ہیں۔ جب وہ خود اہل ہوتے ہیں اور اپنے لئے گھر جو پسند کرتے ہیں ویسا گھر کرایہ پر دینے کے لئے نہیں پسند کرتے بلکہ ایک جگہ پر دو یا تین منزل اپنے لئے جُدا اور کرایہ دارکے لئے جُدا بنواتے ہیں۔ جب نوکری کرتے ہیں تو جس طرح کے استحصال کا شکار وہ خود ہوتے ہیں، مالک بننے کے بعد اُسی قسم کا استحصال وہ اپنے ملازموں کا بھی کرتے ہیں۔ اِس سوچ اور عمل کے نتیجے میں یہ لوگ کتنی بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سوچ کی کمی یہ رہی ہے کہ جو اچھی ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے لئے نہیں پسند کرتے۔ جس کے نتیجے میں ہم برسوں اُسی ڈھرّے پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ اور اکثر لوگوں کی پوری زندگی مالی، جسمانی اور علاقے میں سہولتوں کے فقدان کا شکوہ کرتے گزرتی ہیں۔
جب کہ اِس ماحول سے تھوڑا سا اپنے آپ کو الگ کر کے دیکھیں گے تویہ دیکھنے میں آئے گاکہ ہمارے ہی کلاس میں پڑھنے والا بے سہارا، یتیم و یسیر، بچہ پڑھنے میں بھی تیز تھا اور بڑا ہو کر بزنس مین بن گیا۔ کمپنی کا مالک بن گیا، سیکڑوں، ہزاروں لوگوں کو ملازمت دے دی۔ خود ایک خوش حال زندگی جی رہا ہے اور دوسروں کو بھی خوش حال بنانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ بالمقابل خوش حال گھرانے کے لاڈلےیا تو پی ایچ ڈی کرنے کے زعم میں بے روزگار گھوم کر شکوہ کر رہے ہیں، یا بلا وجہ لوگوں پر اپنی قابلیت کا رُعب جماتے پھر رہے ہیں۔ جب کہ ایسے حالات میں انہیں کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش کے لئے کر لینا چاہیے، خواہ بچوں کو ٹیوشن ہی پڑھانا کیوں نہ ہو۔ بڑی عقل کی باتیںلوگ شوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں، چاہے وہ خود اُس پر عمل نہ کرتے ہوں لیکن دوسروں کو ضرور بتاتے ہیں۔ ’’نہ قد بڑا، نہ پد بڑا، مصیبت میں جو ساتھ کھڑا، وہ سب سے بڑا‘‘ یہ جملہ اُن پڑھے لکھے بے روزگاروں کو سمجھ لینا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اب آپ جیسے جوان اتنے بڑے ہو چکے ہیں کہ آپ کا خرچ اب آپ کے گارجین نہیں اُٹھانا چاہتے۔ آپ کب تک اپنے آپ کو اور گارجین کو ملازمت ملنے کے دھوکہ میں رکھیں گے؟ کوشش کیجیے، لیکن موجودہ حالات میں روز کا خرچ نکالنے کے لئے سہی، کچھ تو کیجیے۔ جس کام کو آپ چھوٹا موٹا یا کمتر سمجھ کر چھوڑ رہے ہیں، اُسی کام کو اکثر لوگ کرکےصرف اپناہی نہیں بلکہ اپنے خاندان کی بھی پرورش کر رہے ہیں۔ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے تین سوال اکثر کیے جاتے ہیں۔ کیا؟ کیسے؟ اور کیوں؟ اِس میں تیسرا سوال سب سے اہم ہے۔اگر آپ کا ’’کیوں‘‘ واضح ہے یعنی کیوں کا نشانہ صاف ہے یا انگریزی میں کہتے ہیں ’’وہائی‘‘ ’’کلیر‘‘ ہے تو آپ کسی بھی منزل کو چھو سکتے ہیں۔ جو بھی آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ کر لیں گے۔ اگر ’’وہائی‘‘ کا وزن کلیر نہیں ہے تو آپ زندگی میں خوش حال نہیں بن سکتے اور نہ ہی کسی کو بنا سکتے ہیں۔ کامیاب انسان بننے کے لئے Why کا Vision واضح ہونا چاہیے۔
مضمون نگار ماہنامہ ’’نئی شناخت‘‘ نئی دہلی کے ایڈیٹر ہیں۔