بلا سودقرض کا لین دین

انتخاب عابدہ بتول
اس تحریر میں قرض کے معاملات سے متعلق صحیح البخاری سے چند احادیث یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
مسلم طرز معاشرت میں مال و زر کی لین دین صرف جمع تفریق ضرب تقسیم کا حساب ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں دین کے اصولوں پر کار بند رہنا بھی عین عبادت ہے ۔
تو چلیں مال کی آپسی لین دین کی چند ایک باتوں کو دہرا لیتے ہیں کچھ کو سیکھ سمجھ کر اپنا لیتے ہیں۔
1- سمارٹ فونز اور بینک کی ایپس کی بدولت لین دین کی کتابت اور شہادت کا کام تو الحمدللہ از خود آسان ترین ہوگیا ہے لہذا جن کے پاس یہ سہولیات نہیں بھی میسر ہوں تو اس سلسلے میں ان کی مدد کرکے ثواب کما لیا کیجئے ۔

2-بلا سودقرض لینے کی اجازت تو دین نےدے دی ہے لیکن کیا اس مال کو خرچ بھی دین ہی کی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے کیا جائے گا ؟ یہ قرض لینے اور دینے والے دونوں فریقین کے لئے اہم بات ہے کہ آیا لینے والا صرف جذباتی بہاؤ اور معاشرتی دباؤ کے تحت غیر شرعی اور غیر مہذب رسومات کی ادائیگی کے لئے قرض کا بار اور گناہوں کا وبال اپنے سر لینے کے درپے تو نہیں ! اور قرض دینے والا بھی دنیا نبھانے کی خاطر گناہ میں معاونت کا شکار ہونے تو نہیں جارہا ؟

3- کسی حاجت مند نے ایک اچھے کام کے لئے قرض لیا لیکن قسمت میں آزمائش لکھی تھی تو یہ بات ممکن ہےکہ کچھ مہلت مزید لے لی جائے،لیکن یہ بدنیتی کے ساتھ ٹال مٹول ہرگز نہ ہو ورنہ مہلت میں میسر ہوجانے والی برکت سے محرومی الگ اور ظلم کے ذریعے آخرت میں نور سےمحرومی الگ سے مل سکتی ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ہی اگر صاحب حق یعنی جس نے قرض دیا تھا وہ بھی اگر اس ٹال مٹول پر قرضدار کوسخت سست کہتا کڑوی کسیلی بات کر جاتا ہے تو یہ بھی اس کا حق بن جاتا ہے۔ [ 2400- 2401] لیکن یاد رہے کہ بس یہیں تک اجازت ہے،مارپیٹ دھمکی خون خرابہ یا لوگوں میں اس کی عزت اچھالنے جیسے مظالم کا لائسنس نہیں مل جاتا ہے۔

4- قرض دار بہت مجبور ہوچکا ہو تو ایک کام یہ کہ قرض خواہ خود ہی قرضہ معاف کر دے ،مکمل نہ سہی کچھ فیصد ہی سہی
حدیث نمبر 2391 ایک شخص کی بخشش اس بات پر ہوگئ کہ وہ قرض کی وصولی میں کشادہ حال سے درگزر کرتا اور تنگ دست کا بوجھ ہلکا کر دیا کرتا۔

5- حدیث نمبر2405 کے مطابق قرض کی وصولی میں کمی کرنے کے لئے کوئ بھلا انسان سفارش بھی کرسکتا ہے ،لیکن دو باتیں اہم ہیں ایک یہ کہ ایسا قرض دینے والے کے مال کو ضائع کرنے کی غرض سے نہ کیا جائےاور دوسرا یہ کہ کتنا ہی اہم انسان ہو لیکن قرضہ دینے والے کا حق ہے کہ وہ اس سفارش کو نامنظور کرسکتاہے۔

6-ہمارے معاشرے کے بعض بزرگ بھی کارل مارکس سے کم نہیں،گھریلو اخراجات کے سسٹم ایسے بناتے ہیں کہ محنت کرکے کمانے والی اولاد اپنےسست نکمے نٹھلے بہن بھائیوں کو پالتے ہوئے اپنی زندگی اور اپنے بیوی بچوں کو قربان کردیتی ہے۔ دوسری جانب نکمی اولاد اگر بیٹا ہے تو وہ اپنی توانائی کے بقدر کما کر نہیں دیتا اور بیٹی ہے تو اپنی محنت سے گھر بسا کر نہیں دیتی یا میکے واپس آجاتی ہے یا میکے سے امداد لئے بغیر گزارہ نہیں کرتی ۔شیر کے مونہہ کو جس طرح انسانی خون کی لت لگ جاتی ہے معاشرے میں ایسے خون چوسنے والے بھائ بہن کا نظام خود کارل مارکس کے جانشین والدین ہی بناتے ہیں جہاں ان کے اصول ہوتے ہیں کہ جب کوئ ایک کما رہا ہے تو وہی سب پر خرچ کرے تاکہ “سب سکھی رہیں ”
یہ تو سراسر جبر ہے کمانے والے پر بھی اور کفایت شعاری سے خرچ کرنے والی اس کی فیملی پر بھی اور جہاں کہیں یہ خرچ روکا جائے وہاں تکرار رہتی ہے کچھ رقم دے کر الگ کاروبار کروادو یا اپنے ہی کاروبار میں شامل کرلو،حالانکہ وہ سرے سے اس کےاہل ہی نہیں ہوتے ۔ قرآن کریم النساء آیت 5میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ [اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کرو ].
اس کے علاوہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے بھی مال برباد کرنے سے منع فرمایا ہے لہذا ایسے افراد جنہیں مال کو درست طور پر خرچ کرنے کا دینی شعور نہیں ان پر خود ان کے مال کے بیجا اسراف پربھی گھر والوں کی طرف سے پابندی لگائ جاسکتی ہے امام مالک رحمہ اللہ کے مطابق اگر کسی کے ذمے کسی کا کچھ مال باقی ہے اور اس کے پاس صرف ایک غلام کے سوا کچھ نہیں تو اسے حق نہیں کہ اس غلام کو آزاد کردے۔ حدیث 2415 اسی طرح کے ایک شخص نے غلام آزاد کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اقدام آزادی کو مسترد کردیا ۔

7- حدیث نمبر 2393-2394 کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو ادائیگی کے لحاظ سے بہترین ہیں۔مطلب قرض کی طے شدہ مدت ہو تو بھی یکمشت ادائیگی طے ہو تب بھی قسط وار ہو تب بھی ٹال مٹول اور کمی نہ کرنا بلکہ قرض لوٹاتے وقت کچھ اوپر سے تحفۃ دے دینا،کیونکہ طے نہیں تھا اس لئے یہ زائد مال دینا سود نہیں بلکہ رعایت اور حسن معاشرت ہے۔ جبکہ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ جس کی نیت ہو قرض لوٹانے کی اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے ۔

8- ہمارے ہاں قبرستان میں تدفین کے وقت اکثر اعلان کیا جاتا ہے کہ میت پر آپ میں سے کسی کا قرض تو نہیں تھا،یاد رہے کہ ایک بار کوئ بھی شخص میت کا قرض اپنے ذمہ لے لے تو اسی پر ادائیگی واجب ہوگی، البتہ یہ بات ورثاء کو سمجھنی چاہیے کہ وراثت ہی میں ان کا حق نہیں بلکہ میت کا قرض اتارنے کا ذمہ بھی ان سب پر آتا ہے۔لیکن ہم سب کا بھی تو فرض ہے نا کہ ہم کریڈٹ کارڈز کے ذریعے سے شان و شوکت بنا کر نہ رکھیں قناعت کی زندگی میں شکر گزار رہیں۔مانا کہ بعض اوقات قرض لینا ضروری ہو جاتا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ حالات سنبھلنےپر بجائے قرض واپس کرنے کے لوگ اپنا لائف سٹائل مہنگا اور اونچا کر لینے کو مجبوری بتا رہے ہوتے ہیں سٹینڈرڈ لو کریں جناب! تاکہ قرض دینے والا آپ سے براہ راست مانگنے کے بجاۓ اللہ تعالیٰ سے آپ کی شکایت نہ لگانے لگے۔

9- فی الوقت اس سلسلے میں آخری اور نہایت اہم دو احادیث2402 کے مطابق کوئ شخص دیوالیہ ہوا قرقی ہوگئ تو نیلامی کی رقم میں سے ادائیگی سب سے پہلے اسے کی جائے گی جس نے قرضہ دیا تھا۔

حدیث نمبر 2403 ایک شخص نے وصیت کی تھی کہ ان کی وفات کے بعد ان کا غلام آزاد ہے لیکن وہ پیغمبر جو ہمیں وصیت پر عمل کرنے کی تاکید کرتے،اس کی تعلیم دیتے ہیں،جو غلاموں کی آزادی پر بشارتیں سناتے ہیں انہوں نے اس موقع پر قرض کے مضرات کو سمجھاتے ہوئے مرنے والے کی وصیت کومسترد قرار دیا،غلام کو بیچ کر مرنے والے کا قرض چکایا گیا کیونکہ قرض وہ قینچی ہے جو شہید کی نیکیوں کو بھی کاٹ کر ایک طرف رکھ دیتی ہے جب تک کہ وہ ادا یا معاف نہ ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کہنے سننے سے کہیں زیادہ نیک نیتی سے عمل صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہر طرح کے قرض کے بوجھ سے نجات عطا فرمائے ۔

فرح رضوان

اپنا تبصرہ لکھیں