بند کرو یہ مظلومیت کے رونے،
تم پاکستانی عورتیں عیاشی کرتی ہو”
یہ تھا وہ لاؤڈ اینڈ کلیئر جملہ جس کے بعد محفل میں پن ڈراپ سائلینس چھا گیا۔
یہ فقرہ میری ایک فیمیل کزن کا تھا جو کینیڈا میں پیدا ہوئی۔
وہیں پلی بڑھی۔
وہیں شادی ہوئی اور آج دو بچوں کی ماں ہے اور پچھلے دنوں ایک شادی اٹینڈ کرنے پاکستان آئی ہوئی تھی۔
تم لوگوں کو پتہ ہے؟
میں صبح چھ بجے اُٹھتی ہوں۔
پہلے بچوں کو پھر خود تیار ہوتی ہوں۔
ناشتہ بناتی ہوں۔
سب صبح مل کے ناشتہ کرتے ہیں۔
بڑے بیٹے کو سکول بس لینے آتی ہے اور چھوٹی بچی ابھی دو سال کی ہے تو میں اُسے کام پہ جاتے ہوئے ڈےکیئر سینٹر چھوڑ کر جاتی ہوں کیونکہ وہ میرے دفتر کے راستے میں پڑتا ہے۔
پھر نو سے پانچ بجے تک جاب کرتی ہوں اور واپسی پہ چھوٹی بچی کو ڈےکیئر سے لے کر آتی ہوں۔
میرا شوہر بھی اسی طرح نو سے پانچ جاب کرتا ہے۔بڑے بیٹے کو سکول بس گھر چھوڑ دیتی ہے۔پھر گھر آ کر صفائی ستھرائی اور کھانا بنانے میں لگ جاتی ہوں۔
اس دوران میرا شوہر بیٹے کو ہوم ورک کرواتا ہے اور پھر روزانہ کا بازار سے دودھ دہی سودا سلف وغیرہ لے کر آتا ہے۔رات کا کھانا اکٹھا کھانے کے بعد ہم لوگوں کا دس بجے تک سونا لازمی ہے کیونکہ پھر صبح چھ بجے سب نے اُٹھنا ہوتا ہے۔
اکثر چھوٹی بچی رات کو سونے نہیں دیتی تو کبھی میں اور کبھی میرا شوہر رات کو اُس کو بہلا رہے ہوتے ہیں۔
جس سے ہم دونوں کی اکثر نیند بھی پوری نہیں ہو پاتی۔ویک اینڈ تو اکثر ہمارا صفائیاں کرتے اور واشنگ مشین کے ساتھ گزرتا ہے۔
“کام والی ماسی”
کی عیاشی ہمارے سمیت بہت سارے لوگ افورڈ نہیں کر سکتے۔
دوسری طرف تم میں سے کتنی پاکستانی عورتیں جاب کرتی ہیں؟
ویسے اس وقت یہاں بیٹھی تم میں سے کوئی بھی جاب نہیں کر رہی؟
زیادہ تر نے گھر کے کام کاج کے لیے لڑکی رکھی ہوئی ہے اور جنہوں نے نہیں رکھی ہوئی اُن کے گھروں میں روزانہ کام کرنے والی ماسیاں آتی ہیں۔
یہ ماسیاں روز برتن دھوتی اور صفائی کرتی ہیں اور ہر دوسرے دن کپڑے بھی دھو جاتی ہیں۔
تم لوگ زیادہ سے زیادہ تھوڑی بہت ھانڈی روٹی کر لیتی ہو؟
جاب اور گھر کے کام کاج(کوئی خاص) تم لوگ نہیں کرتیں؟شوہروں کی کمائی اڑاتی ہو۔
بچوں کی ٹیوشن کے لیے ٹیوٹر اور قاری صاحب رکھے ہوئے ہیں۔
ہر وقت ڈرامے،یو ٹیوب اور فیس بُک وغیرہ پہ تم لوگ موجود ہوتی ہو اور رونے رو رہی ہوتی ہو کہ پاکستانی عورت بہت مظلوم ہے