بھکاری ہمارے شہر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھکاری ہمارے شہر میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخشالوی

ساﺅتھ افریقہ میں صاحبزادے کیساتھ گاڑی میں ساﺅتھ افریقہ کی معاشرتی زندگی اور ساﺅتھ افریقہ کے بازار دیکھنے کیلئے گھر سے چلا شہر کی ایک خوبصورت ترین شاہراہ پر ٹریفک سگنل پرگاڑی رکی تو ایک عمررسیدہ خاتون ہاتھ جوڑے بھیک مانگتی نظر آئی ۔خاتون ہاتھ جوڑے ہر کھڑی گاڑی کے پاس رُکتی ،گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگ خاتون کو خیرات دیتے وہ دعا کی صورت دونوں ہاتھ بڑھاتی اور دعا دیتی جس گاڑی سے معاف کروکا اشارہ ہوتا وہ خاموشی سے آگے بڑھ جاتی ۔وہ نہ تو باآواز بلند دعائیں دے رہی تھی اور نہ ہی گاڑی کے شیشے پر دستک دے کر ڈرائیور کو متوجہ کرتی ،ٹریفک سگنل کی لائٹ گرین ہوئی گاڑی چلی اور میں اپنے دیس کے فقیروں کو سوچنے لگا ۔
غربت ہر معاشرے میں ہے لیکن مہذب معاشرے میں غریبوں کی غربت اُن کے چہروں پر دیکھی اور پڑھی جاتی ہے اور ایسے مہذب معاشرے میں غریب کو خیرات دینے والا ذہنی طور پر مطمئن ہوتا کہ وہ کسی ضرورت مند کو خیرات دے رہا ہے ،میرے وطن عزیز میں خیرات لینے اور خیرات دینے کا انداز کچھ مختلف ہے اس لےے کہ میرے پاکستان میں بھیک مانگنا ایک پیشہ ہے اور پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے ضرورت مند خیرات سے محروم رہ جاتے ہیں ۔پیش ور بھکاریوں میں بڑی تعداد منشیات کی لعنت میں مبتلا ہے اور ایسے بھکاریوں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے جو بھکاری کے روپ میں گھناﺅنے جرائم کو جنم دیتی ہیں ۔پیشہ وربھکاریوں میں جوان لڑکیاں بازاروں اور چوراہوں پر مہذب معاشرے کے مہذب لوگوں کا درد سر ہیں ۔
گاڑی بازارمیں یا کسی چوراہے پر رکتی ہے تو یہ پیشہ ور بھکاری گاڑی کے گرد ہوجاتی ہیں ۔ان کی نظر میں گاڑی میں بیٹھے افراد اندھے اور بہرے ہوتے ہیں ۔شیشوں پر دستک دیتے ہیں غلیظ لباس میں غلیظ زبان سے اُس رب کریم کا نام لیتی ہیں جس کو سجدہ کی توفیق سے بھی محروم ہیں ان میں کچھ ایسی جوان لڑکیاں ہوتی ہیں جو اپنے مخصوص انداز میں دعوت گناہ دیتی ہیں ۔ان کا انداز کچھ اس طرح بیہودہ ہوتا کہ انسان انہیں دھتکارنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔یہی پیشہ ور بھکاری دن بھر خیرات میں لی ہوئی رقم شام کو منشیات کے اڈوں میں نشہ خرید کر اُڑادیتی ہیں ان کی راتیں ان کے خیموں ،شاہراہوں اور پارکوں میں گزرتی ہیں معاشرے کی ان ناسور خواتین کے کردار وعمل سے خیرات کا حقیقی تصور ضائع ہوجاتا ہے اس لےے کہ ایسی خواتین کو خیرات دینے والے خوشی سے نہیں مجبور ہو کر ان سے جان چُھڑانے کے لیے کچھ دے دیا کرتے ہیں ۔میں اپنے شہر میں بھکاریوں کی اس یلغار کو بازاروں اور شاہراہوں پر آئے روز دیکھتا ہوں لیکن کوئی قانون ایسا نہیں جس کی علمداری میں شہریوں کو ان پیشہ وروں سے نجات دلایا جاسکے ۔یہ خواتین اور بھکاری دن بھر کی کمائی کہاں جاکر دیتے ہیں اُن کو بھی بخوبی جانتا ہوں ہر کوئی جانتا ہے لیکن ہم اپنی مجبوریوں کی وجہ سے صرف اور صرف تماش بین ہیں

بھکاری ہمارے شہر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں