بے جی آپ کو سلام

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری

@engiftikharch
میری بے جی کو اس دنیا سے گزرے تقریبا سولہ سال ہو گئے ہیں۔ آج سب اپنی ماؤں کو محبت کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔سال ۲۰۱۶ اس وقت ایک دو راہے پر کھڑا ہے۔میاں نواز شریف پانامہ لیکس میں الجھے ہوئے کچھ لوگ مارشل لاء کی سنا رہے ہیں مین کانپ جاتا ہوں اس بار تو میرے پاس قربانی کے لئے ماں بھی نہیں ہے میں اپنے ملک کو کیا دوں گا۔لویو موم کے چرچے ہیں۔مجھے ایک دوست کی بات بہت اچھی لگی انہوں نے کہا ہم تو سارا سال مدر ڈے مناتے ہیں یہ تو وہ مناتے ہیں جو ماؤں کو اولڈ ھومز میں چھوڑ آتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ کچھ عرصہ سے ہم بہت سے ایسے دن منا ہے ہیں جو ہمارے وقتوں میں نہیں ہوا کرتے تھے۔مادر ڈے فادر ڈے بیٹی کا دن ویلینٹائن ڈے یہ سب ہے کیا۔مجھے دقیانوسی نہ سمجھئے گا یہ ایک فنانشل ایکٹیوٹی ہے ۔پیسے کی حرکت ایک جیب میں سے دوسرا۔ اس رات ہمارے بیٹے نے بھی کیک کاٹا بیٹی نے امی کے لئے ایک چار ہزاری سوٹ خریدا۔اس ساری ایکٹیوٹی میں ایک مسکین فادر تھا جس کی جیب کو دوطرفہ نقصان ہوا۔ہم پرانے لوگ ہیں لیکن ہم بھی اسی دور میں جینا چاہتے ہیں۔بیگم نے شکایتانہ انداز میں کہا پچھلے سال جدہ میں تھی بچوں نے صبح سویرے کہا کہ ماں جی بس بہت ہو گیا اب آپ نے بیڈ سے قدم نہیں نیچے کرنا آج سار کچھ ہم کریں گے باہر جائیں گے کھائیں پیءں گے موج ہو گی مستی ہو گی۔میں نے محسوس کیا پاکستان آنے کے بعد مادر فرزاندان چودھری افتخار پر بڑے ستم ہو رہے ہیں۔وہاں تا دیر جاگنا اور اسی کی نسبت سے ظہر کے وقت اٹھنا اور یہاں علی الصبح ا ٹھ جانانہ بھی موڈ ہو تو تو نہ ماری گھنٹیاں۔۔۔۔کوئی حال پوچھنے آ جاتا ہے تو کوئی دودھ دینے مانگنے والے بھی گھنٹی بجا کر دست سوال دراز کرتے ہیں۔
خیر یہ معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔آج خیال آیا ساری دنیا کی مائیں موضوع بنی رہیں۔سب نے حصہ بقدر جثہ اپنی اپنی امیوں ماؤں کو خراج تحسین اور عقیدت پیش کیا پھول لائے کیک کاٹے سوچا میں بھی اپنی ماں کے بارے میں قلم اٹھاؤں بے جی کے بارے میں لکھوں گرچہ ان کی حیات پر پاکستان کے قومی اخبارات میں کالم لکھ چکا ہوں۔ ایک ہمارے دوست ہیں جن کے قومی اخبارات میں کالم چھپتے ہیں کمال کے لکھاری ہیں بس موصوف اسیر زلف نواز نہ ہوتے تو ہم انہیں موڈوں پر اٹھائے پھرتے اس کے باوجود وہ ہمار ے ہی ہیں ا ن کی خوبصورت تحریریں قاری چاہے وہ عزیزیہ جدہ میں رہتا ہو یا اسپانیہ کے شہر جبرالٹر میں بھائی انہیں رائے ونڈ لے جاتے ہیں بس با با یہی آپ کی اور میری منزل مراد ہے۔
بے جی کے بارے میں او جانے کالم نہ صرف انہیں پسند آیا بلکہ مرحوم مجید نظامی نے بھی سراہا۔
بے جی کا تکیہ کلام او جانے بڑا مشہور تھا۔کسی بھی قسم کی زیادتی کاواقعہ ان کے سامنے لایا جاتا تو او جانے کوئی بات نہیں اللہ بہتر کرے گا کہہ کر اگلے کو تسلی دے دیتی تھیں ہمارے ایک دوست چودھری اعظم جدہ میں ہوتے ہیں زہرہ ہوٹل کے مالک ہیں بڑی پیاری چیز ہیں انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک گاؤں میں ایک بڑھیا تھی وہ کسی کو بھی برا نہیں کہتی تھی تین چاردوستوں نے سوچا بڑھیا کسی کو برا نہیں کہتی آج ان سے بات کرتے ہیں۔ایک نے اماں جی سے کہا ماں جی دیکھیں یہ شیطان بڑی بری بلا ہے ہمیں نیکی سے منع کرتا ہے میں صبح سویرے اٹھتا ہوں نماز پڑھنے کے لئے اٹھنا چاہتا ہوں تو مجھے منع کرتا ہے ادھر ادھر کے ڈراوے دکھلاتا ہے کہتا ہے منہ اندھیرے نکلو گے کتا کاٹ لے گا سردی لگ جائے گی دیکھیں نہ کتنا برا ہے یہ شیطان آپ اس کے بارے میں کچھ مذمتی کلمات ادا کریں ۔دوسرا بولا ماں جی یہ صیح کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے ظہر کی نماز پڑھنے نکلوں تو گرمی دھوپ اور سو طرح کے وسوسے ڈالتا ہے عصر اور مغرب پر بھی میرے ساتھ سفاکانہ سلوک کرتا ہے ماں جی بولیں نا اس کی مذمت کریں دوسرے نے کہا۔تیسرے نے تو حد کر دی شیطان کی ہزار ہا بد خوئیاں کیں اور
آ خر میں اماں جی سے شدید مطالبہ کر ڈالا کہ آپ پر لازم ہے اس کے خلاف اظہار رائے کریں۔
تینوں ہمہ تن گوش تھے اور بوڑھی اماں سے شیطان کے بارے میں سننے کے لئے بے تاب ہو گئے۔ تینوں کی طرف ٹھنڈی سانس بھر کر دیکھا اور کہا اللہ اسے ہدایت دے لیکن دیکھو محنتی کتنا ہے صبح سے لے کر رات تک اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔بس اس کو برا مت کہو اس کے لئے دعا کرو اللہ اس مردود کوہدائت بخش دے جس دن یہ دعا قبول ہو گئی دنیا سنور جائے گی۔اور اللہ کے نام لیوا اگر اس سے آدھی محنت بھی کریں تو دنیا سنور جائے گی۔تینوں اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔
بے جی اس دنیا کے تمام شیطانوں کے لئے ہدائت طلب کر تی رہیں۔کبھی کسی کے لئے بد دعا نہیں کی۔
وہ موضع لسن ایبٹ آباد کے چیچی گجروں کے ہاں پیدا ہوئیں ہم انہیں پیارسے تنگ کرتے اور کہتے چیچی پیچی تو چوہانوں کے بارے میں دلچسپ باتیں بتاتیں۔
بے جی کب پیدا ہوئیں ان کی ڈیٹ آف برتھ کیا تھی کچھ معلوم نہیں مگر تقریبا ۷۵ سال عمر پائی اور اس عمر کا سراغ بھی ہم نے اپنے کزن کی تاریخ پیدائش سے لگایا جو بتاتے ہیں کہ چچی جب ہمارے گھر آئیں تو ان کی عمر پندرہ کے قریب تھی اور میں کوئی پانچ سال کا۔
ہزارہ،جہلم چکوال کشمیر اور دوسرے بارانی علاقوں کی مائیں اس لحاظ سے بد قسمت ہوتی ہیں کہ وہ انہیں جنم تو دے دیتی ہیں مگر ان بچوں ک کی جوانیاں پردیس میں گزر جاتی ہیں بعض تو وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں وہیں مر کھپ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ فوجی نرسری کے علاقوں میں جان بوجھ کر گوروں نے انڈسٹری نہیں لگائی تا کہ کہیں یہ اپنے ہی گھروں میں روٹی پر نہ لگ جائیں۔میں نے دیکھا ہے ایک بار عرب کے دوسرے بڑے صحراء ربع الخالی میں ۱۹۷۷ میں کام کے سلسلے میں جانے کا موقع ملا۔جس جگہ ارگاس کمپنی کا کیمپ تھا وہاں ہمیں جاناتھا میں کمپنی کے ڈی سی تھری ۱۹۴۸ مارکہ جہاز میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ تلاش رزق کے لئے کہاں کہاں کی ٹھوکریں نصیبوں میں لکھ دی گئی ہیں میرے ساتھ ایک اور پاکستانی تھے فرانسیسی پائیلٹ اور ہم دو نصیبوں مارے وہاں ریتلے رن وے پر اترے ایک بار تو جہاز کے پر نہ کھل سکے دوسری بار خدا خدا کر کے ہمارا تعلق زمین سے جڑا میں اپنے آپ کو صحرا کے اس گوشے میں سلطان قاضی کے بعد دوسرا شخص سمجھ رہا تھا لیکن کیمپ میں پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔۲۰۰۴ میں ملائیشیا گیا تو وہاں ہمیں جنگ عظیم دوم کے شہداء کی قبور پر لے جایا گیا اس یاد گار میں مدفون میرداد کالا خان شیر خان سب ہی ہمارے اپنے تھے۔واہ او روٹیے۔
میرے بزرگ بھی داخلی ہجرت کرتے ہوئے گجرانوالہ آن پہنچے۔مختلف محلوں میں کرائے دار کی حیثیت سے رہنے کے بعد خدا نے ہمیں محلہ باغبانپورہ میں اپنی چھت دے دی۔میری مدر اپنے کم سن بچوں کے ساتھ وہیں ٹک گئیں۔کہتے ہیں گھر عورتیں بناتی ہیں۔چڑیا کی طرح تنکہ تنکہ کر کے گھونسلہ بنتا ہے ۔خاتون خانہ اگر سگھڑ نہ ہو تو عرب کے تیل کے کنویں بھی آپ کے ہوں تو آپ آخر عمر میں مفلس ہی مرتے ہیں۔
ماں جی نے اپنے خاوند کو دیہاتی سے شہری بننے میں بڑی دلیری اور جانفشانی سے سہارا دیا۔والد صاحب نے مختلف مراحل جن میں کامونکی میں چاولوں کی آڑھت بعد میں کچے دروازے میں فیروز خان میٹل ورکس میں شراکت کے بعد چوہان میٹل ورکس کے نام سے ایک چھوٹا سا کارخانہ بنا لیا جس میں ایلومنیم کے برتن بنایا کرتے تھے۔والد صاحب خود بھی کام میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔بے جی نے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ گاؤں سے آنے والے ر شتے داروں کو بھی سنبھالا دیا۔کس طرح ہماری پرورش کی آج اگر اپنے بچوں سے بات
کریں تو ہیئیں کہہ کر حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں گرمیوں میں ہم گاؤں چلے جایا کرتے تھے وہاں جا کر دوسرے ہی دن سے جنگل سے لکڑیاں وغیرہ اور گھر گرہستی میں مصروف ہو جایا کرتی تھیں۔دلیر اتنی کے سانپ وغیرہ کو آسانی سے مار دیتی تھیں
میں نے زندگی میں بے جی کو کبھی بھی سکون اور ترتیب سے نہ کھانا کھاتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی سوتے،تھوڑی سے اونگ سے کام چلا لیتی تھیں اکثر سجدے میں سو جاتی تھیں جب ہم تھپ تھپ کرتے تو جاگ کر نماز مکمل کرتی تھیں۔گھر کا آخری فرد ہوتی تھیں سونے میں اور پہلا فرد اٹھنے میں۔نماز تو نماز تہجد تک نہیں چھوڑتی تھیں۔ایک بار عزیزم عارف جو تنظیم اسلامی کے ذمہ دار ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ بے جی کو پریشان دیکھ کر میں نے پوچھا کیا بات ہے فرمایا میری تہجد چلی گئی۔ بے جی محلے کو وہ ہردل عزیز ماں تھی جنہیں ہر کوئی بے جی کہہ کر پکارتا چھوٹی موٹی چیزیں ایک دوسرے کے گھر بھیجا کرتیں کہتیں اس سے تعلق اور بھائی چارہ بڑھتا ہے۔میں نے دیکھا ہے کی نوجوان مائیں بچوں کے اس طرح لاڈ نہیں لڈاتیں جیسے بزرگ عرتیں کیا کرتی تھیں۔میرے چھوٹے بھائی سرفراز جو آج کل اڈالی دینہ میں ہے وہ گھر میں گھستا تو پوچھتا کی آج کیا پکا ہے۔ایک دن پوچھا کہ بے جی کیا پکا ہے انہوں نیکہا گاجراں۔روز ای روز ڈاگراں۔موصوف غصے کے کافی تیز تھے۔دراصل اس دن بھنڈیاں پکی ہوئی تھیں۔بے جی نے کہا کہ سامنے کے گھر بھنڈیاں پکی ہیں لادوں؟اس نے کہا بلکل بھنڈی اچھی سبزی ہے وہی کھاؤں گا۔وہ اپنے سفید دوپٹے کے نیچے پیالے میں بھنڈیوں کا سالن ڈالتیں اور سامنے کے گھر سے واپس آ کر جناب سرفراز کی شکم سیری کرواتیں۔بلیوں سے برا پیار کرتی تھیں،ان کا جب انتقال ہوا تو ایک بلی ایک ماہ تک منڈیر پر انہیں پکارتی رہی اور پھر کہیں غائب ہو گئی۔ایک بار محلے میں میرے دوست کے بچوں کو گھر لے آئیں ان کے حالات خراب تھے گھر میں دیگر بچوں کے ساتھ ان کی ذرا نہیں بنی تو بچوں کو سمجھایا کرتیں کی بچو!مہمان اللہ کی نعمت ہیں۔پندرہ بیس روز تک انہیں گھر رکھا پھر راضی نامہ کروا کے گھر بھیج دیا۔
ماں جی چرخہ کات کے بڑی بہن کے لئے کھیس بناتی تھیں۔کسی کے گھر چلی جائیں تو ان کے گھر کے کاموں میں مدد کرنا ان کا مشغلہ تھا۔
حج کے لئے جدہ گئیں تو میرے روم میٹس کے کپڑے تک دھو ڈالتیں ایک بار ایک دوست نے دیکھا تو کہنے لگا ماں جی یہ افتخار کے کپڑے نہیں بولیں تم بھی تو میرے بیٹے ہو۔والد صاحب غصیلی طبیعت کے تھے زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا ان کے سیاسی معاملات کو درست کرنے میں مدد دیتیں۔
بلدیاتی انتحابات میں والد صاحب کی کامیابی کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہوتا۔
ایبٹ آباد کے ٹھنڈے علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گجرانوالہ کی گرمیاں انہیں بہت ستاتی تھیں گرمی دانوں سے ان کا جسم بھر جاتا مگر کبھی شکائت لب پر نہ لاتیں۔زندگی میں اتار چڑھاؤ تو آتا رہتا ہے ہم نے ۱۹۷۰ کے چند سال بڑی مشکل سے گزارے ایک بار تو والد صاحب نے ہاتھ کھڑے کر لئے اور کہا کہ گاؤں چلی جاؤ شہر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے بے جی نے کہا میں لوگوں کے برتن مانجھ لوں گی مگر بچے پڑھاؤں گی۔ہم کیسے پڑھے اس کا احساس ہم تین بڑھے بہن بھائیوں کو ہے۔میں بہت سے ایسے واقعات سے در گزر کر رہاہوں صرف اس لئے کہ میں ان مشکل دور کے واقعات کو یاد کرکے ڈیپریشن میں نہیں جانا چاہتا۔میں نے پولی ٹیکنیک لاہور سے تین سال کا ڈپلومہ ریل گاڑی پر سفر کر کے کیا بعد میں مزید تعلیم اچھے دنوں میں کی۔بے جی فجر کی نماز سے پہلے اٹھتیں بھینس کو سنبھالنے کے بعد میرے لئے توشہ تیار کرتیں اور اندھیرے میں ریلوے اسٹیشن کی جانب چل نکلتا جو گھر سے ائک میل دور تھا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ جیسا بھی ہو کٹ جاتا ہے۔بے جی اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی اجتماع کرایا کرتی تھیں۔
شفیق اتنی کے محلے کے لوگ ہمارے گھر لسی لینے آیا کرتے بے جی سب کو دے کر روانہ کرتیں۔ایک بار والد صاحب نے کسی بچی کو واپس کر دیا۔تو اپنے دوپٹے کے نیچے لسی کا گلاس چھپا کر ان کے گھر دے آئیں۔بے جی کی لسی اور پانی میں فرق کرنا بڑا مشکل ہو جاتا تھا دوپہر تک پانی کا ذائقہ لسی کو مات دے دیتا تھا۔کہتیں او جانے پترا جنہاں سنگڑی پیتی اے او وی اتے ایں تے ہم وی ۔گوجری بولا کرتی تھیں ایک عرصے بعد پنجابی بھی سیکھ گئیں مگر اس میں ہندکو اور گوجری کا ٹچ ہوتا تھا۔۔

بھائی جان نے الیکشن لڑا مد مقابل شہر کے نامی گرامی بد معاش تھے۔چند ووٹوں سے شکست ہوئی تو مد مقابل ڈھول باجوں کے ساتھ ہمارے گھر کی طرف بڑھنے لگے جس سے ہمارے حامیوں نے لاشیں گرانے کا منصوبہ بنا لیا دوڑکر ان کے پاس پہنچ گئیں انہوں نے بے جی کے پاؤں چومے اور سب کچھ بند کر کے خاموشی سے چلے گئے یوں خونریزی سے جان چھٹ گئی۔سیاسی فہم و فراست بہت تھی۔اللہ نے انہیں جتنی تکلیفیں دی صبر شکر سے برداشت کرنے کا پھل ملا۔بھائی جان امتیاز اعجاز سجاد اور میں نے پھر انہیں خوب سیریں کرائیں کبھی تہران جدہ عمرے حج۔ایک بار میرے دوست جناب اعجاز الحق نے مکہ میں زمزم ٹاور میں بے جی سے دعا کی اپیل کی۔ماں جی نے کہا پترا پیراں تا بھار پایا کر تے سب ٹھیک ہو جائے گا۔اعجاز مسکرا دیے اور کہنے لگے یار بے جی تے وڈے سیاست دان نیں۔میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ وہ ولی اللہ تھیں لیکن اتنا ضرور ہے کہوں گا کہ ان کی زندگی کے چند واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا ان پر کرم تھا۔مریم نواز شریف کیپٹن صفدر میاں صاحبان کی والدہ یہ سب لوگ مشرف انقلاب سے پہلے جدہ آئے ہوئے تھے۔ایک بار مریم نے بے جی سے دعا کی اپیل کی۔انہوں نے ایک وظیفہ کرنے کو کہا اور بتایا کہ انشاء اللہ تمہارا باپ جدہ میں تمہیں ملے گا۔میاں صاحب اس وقت اٹک قلعہ میں تھے۔اور اللہ کا کرنا ہوئے میاں نواز شریف رہا ہو کر جدہ پہنچے۔
جب وہ رہا ہو کر جدہ آئے تو ایک تسبیح میں نے میاں صاحب کو پیش کی جو انہیں والدہ صاحبہ نے دی تھی حجر اسود کے پاس میں نے مغرب کی نماز کے بعد انہیں دی اور کہا کہ والدہ محترمہ نے کہا ہے کہ اس پر استغفراللہ پڑھیں اس لئے کہ اللہ ہی ہے جو نعاف کرنے والا ہے۔میاں صاحبان سے قربت کی وجہ بے جی بھی تھیں۔میرا خدا گواہ ہے میں نے کبھی بھی مسلم لیگ نون جائن نہیں کی لیکن جب جنرل مشرف دور میں جنرل اسد درانی نے قاری شکیل اور دیگر مسلم لیگیوں کو گرفتار کیا تو میں چپ نہ رہ سکا ۔سکول کے معاملات بھی تھے مجھے جنرل اسد درانی نے دیگر مسلم لیگیوں کے ساتھ جیل بھجوا دیا۔
لوگو یاد رکھنا فوجی کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے دلوں میں عام انسانوں کی طرح پسیج جانے والا دل ہوتا ہے۔انہوں نے بے شمارپاکستانیوں کے گھر اجاڑے ہیں اس میں قاری شکیل ارشد خان عظمت خان نیازی آفتاب مرزا ڈاکٹر قسیم امجد خواجہ نعیم بٹ شہباز دین بٹ شامل ہیں اور کئی جو صرف اس لئے کہ وہ آمریت کے خلاف تھے ۔مجھے ۷۱ دن بند رکھا گیا ہم اجڑے جیسے ۴۷ میں مہاجر اجڑے تھے۔میری ماں بھی اسی آپریشن کی نظر ہوئی،بے جی کو اپنے بیٹے کو اس طرح اجڑنا لے دے گیا۔
وہ کہا کرتیں میرا شہزادہ بیٹا جیل کی نظر کیوں ہوا؟انہیں میرا دکھ لے بیٹھا۔میں ۱۹ مارچ ۲۰۰۲ کو اپنے آفس سے گرفتار ہوا اور ۲۸ مئی ۲۰۰۲ کو پاکستان پہنچا دیا گیا۔بے جی اس دوران ساری رات مصلے پر روتی ریتیں اور اللہ سے بیٹا مانگنے آہ و زاری کیا کرتیں۔
آمریت پر ہزار لعنت مجھے آج بھی کوئی کہتا ہے کہ مارشل لاء آئے تو میرا جواب یہی ہوتا ہے میری لاش پر۔بے حس لوگ ہیں۔جنرل مشرف جو اب اپنی ماں کے واسظے دیتا ہے کہ مجھے رہا کرو تو مجھے اپنی ماں یاد آتی ہے۔کتنی ماؤں کو تم نے تڑپایا ہے اے او بہادر جرنیل۔چوہے کی طرح کبھی آرمڈ فورسز ہسپتا میں چھپتے ہو اور کبھی کراچی دم دبا کر بھاگ جاتے ہو۔میری سب تحریریں پڑھ لیں میں نے بحیثیت ادارہ کبھی فوج کو برا نہیں کہا مگر جب کرنل طارق اور جنرل درانی کی وہ خرمستیاں یاد آتی ہیں تو دل کرتا ہے ان ننگ دیں ننگ ملت جوڑے کو کورٹ مارشل کے لئے جنرل راحیل ہی کے پاس بھیج دوں۔ک میری بات پہنچے تو میں چاہوں گا کہ ۲۰۰۲ میں ہونے والے مظالم کا نوٹ س لیا جائے۔میں بہت پریشان تھا جب گجرانوالہ پہنچا تو بے جی نے بلائیں لیں ہم نلہ ہری پور آئے تو مزید بیمار ہو گئیں ۲۴ دن پمز میں داخل رہیں اور ۲۲ جون ۲۰۰۲ کو اس جہاں سے رخصت ہوئیں
جنرل مشرف تو نے قوم کی بیٹی عافیہ ہی نہیں بیچی میری ماں کو بھی مارا ہے۔تو کبھی سکوں نہیں پائے گا نہ تم اور نہ تمہاری ماں۔ بھگوڑوں کو لوگ چوہا بولتے ہیں آپ ایک چوہے ہو۔اس روز جب شکیل دولہا بنا تو آپ بہت یاد آئین آپ ہی نے اس کا نام رکھا اور آپ ہی نے اسے کرن سے جوڑا آپ ہی نے اسے حافظ قران بنوایا سب بن گیا مگر آپ نہیں ہیں۔
۲۰۰۲ کے شروع کے دنوں میں مجھے کسی پہلو قرار نہ ملتا تھا،سارا د ن رات سوچتا رہتا لیکن اس روز بے جی خواب میں آئیں گلے لگایا میں نے بڑے شکوے کئے۔بس ایک آواز میرے کان میں گونجی۔پتر او جانے میری گجری ماں کہا کرتی تھیں جب بتی چلی جائے تو کلمہ پڑھا کرو عادت بن جائے گی تو قبر کے اندھیرے میں کلمہ یاد آ جائے گا۔لوڈ شیڈنگ کے وقت بے جی یاد آتے ہیں یہی میرا مدر ڈے ہے۔ میرے لئے ہر ڈے مدر ڈے ہے مائے نی میں کنہوں آکھاں بے جی آپ کو سلامؤ

اپنا تبصرہ لکھیں