تعلیم اور جدید معاشرہ
مقالہ احسان شیخ
اکیس جنوری بروز اتوار لاہور فیملی نیٹ ورک ناروے کے زیر اہتمام بچوں کے لیے تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر ایک سیمینار کا انعقاد ہوا۔اس پروگرام میں راقم نے ایک مقالہ پڑھا جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔آج کے سیمینار کا موضوع ہے Hva kan foreldre gjøre for å motivere sine barn til å ta ut utdannelse og skolegang på alvor?یعنی والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے بارے میں سنجیدگی کی ترغیب کس طرح دے سکتے ہیں؟میریے نزدیک بچوں کو تعلیم کے بارے میں سنجیدگی کی ترغیب دینے سے پہلے ہمیں خود یہ سمجھنا ہو گا کہ تعلیم اور اسکی اہمیت و افادیت کیا ہے؟اس کے علاوہ کسی ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں کا طریقہء زندگی ہمار ے طریقے سے مختلف ہے۔ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت کن باتوں کاخیال رکھنا چاہیے؟تاکہ انکی اس معاشرے میں تربیت کرتے وقت مستقبل میں ان کے لیے آسانیاں پیدا ہو سکیں۔اصلاح تعلیم سے مراد کسی شخص کے اندر موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مختلف فوائد حاصل کرنے کے ہنر سے متعلق ہے۔لہٰذا انسان کے اندر موجود صلاحیتوں کو ہنر یعنی تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔انسانی زندگی میں تعلیم کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔تعلیم انسان کی سوچ کو صحٰح سمت اختیار کرنے کے قابل بناتی ہے۔تعلیم عموماً افراد کی تربیت کے ذریعے معاشرے پر اثر انداز ہونے والا عنصر سمجھا جاتا ہے۔دراصل تعلیمی ادارے افرد کی تربیت کرتے ہوئے اپنے تجربات کی روشنی میںانہیں مضبوط نیٹ ورک کے نظام کے ذریعے انہیں معاشرے کے لیے کام کرنے والے کردار کی حیثیت میں تیار کرتے ہیں۔
جدید معاشروں میں تعلیم ایک ایسا مرتب نظام ہے جو اپنے قوانین کے نیٹ ورک کے ذریعے معاشرے میںتعلیم کی بنیاد پر معاشرے میں افراد کی حیثیتوں میں تفریق پیدا کرتی ہے۔وہ علم کی بنیاد پر معاشرے میں لوگوں کو مختلف مقامات اوردرجوں میںرکھتے ہوئے اس بات کیا تعین کرتی ہے کہ کن لوگوں کو اعلیٰ مقام پر رکھا جائے؟اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ فرد معاشرے میں اپنی حیثیت متعین کرانے کا خود ذمہ دار ہے۔کسی اجنبی معاشرے میں رہنے کے لیے سب سے پہلے اس معاشرے کی ہیت اور اس کے مختلف سیاسی ،سماجی تعلیمی اور معاشی اور دیگر اداروں کی جانکاری ضروری ہے۔اس کے بعد اپنے اہداف کے حصول کے لیے ان اداروں کے ساتھ مسلسل تعاون اور رابطہ ضروری ہے۔تعلیم لوگوں میں بیان کردہ باتوں کے بارے میں جاننے انکا تجزیہ کرنے اور ایک مسلسل عمل کے ذریعے معاشرے سے رابطہ کرنے میں ممدوع ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا وہ بچے جن کے والدین نے شروع سے ہی اپنے بچوں کی تربیت معاشرے کے ڈھانچے کو سمجھتے ہوئے بارنے ہاگن اسکول اور دیگر اداروں کے طریقہ کار کے مطابق کی ان بچوں کو بعد میں کسی بھی سطح پر معاشرے میں مربوط ہونے میں مشکل پیش نہیں آئی۔وہ اپنی تعلیم اور علم کے بل بوتے پر معاشر تی ارتقائی عمل کا حصہ بنتے ہوئے آگے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔آج ہماری نوجوان نسل مقامی ہسپتالوں اور دیگر اداروں میں اعلیٰ حیثیتوں میں کام کر رہے ہیں۔انہیں ہم ہر شعبہء زندگی مثلاً سیاست تعلیم کاروبار ملازمت اور دیگر شعبہء جات میں کامیاب پاتے ہیں۔اس معاشرے میں ہر طرح کی سہولیات اور امکانات موجود ہیں۔ضرورت صرف لگن شوق اور فراخدلی سے اس معاشرکے طریقہ ء زندگی کو مقامی لوگوں کے نقطہء نظر سے دیکھتے ہوئے اس کے احترام کرنے کی ہے تاکہ وہ بھی ہمارے طریقہء زندگی کو ہماری نظروں سے دیکھتے ہوئے احترام کریں۔ایسا کرنے سے باہمی افہام و تفہیم کا ماحول پیدا ہو گا۔جس میں سب مل کر معاشرے کی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ایسا صرف تبھی ہو سکتا ہے اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انکی تربیت بھی اسی شوق اور ذمہ دار کے ساتھ کریںجس کے ذریعے انکی شخصیت انکی طبیعت رجحان اور رویے سے دوسروں کے لیے باعث کشش بن سکے۔ تعلیم کو عموماً تربیت کے ذریعے معاشرے میںلوگوں پر اثر انداز ہونے والا عنصر سمجھا جاتا ہے۔بچوں کی تعلیم وتربیت اور انکی پرورش کرتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کو اپنے رد گرد موجودحقیقی دنیا سے متعارف کرانے اور روزمرہ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں آگہی اور انکے مزاج اور رویوں کو مثبت بنانے کے لیے ان پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔منفی ،غیر متوازن اور تلخ رویے ان کے معاشرے میں مربوط بنانے کے راستے میں حائل ہو سکتے ہیں۔جو بعد میں انکی ترقی میں مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ناروے میں آج کے بچوں کی کامیابی کا سہرا والدین کی توجہ اور تعلیم و تربیت کے علاہ بچوں کی محنت کو بھی جاتا ہے۔انہوں نے دن رات محنت کر کے نہ صرف اپنے والدین کی خواہش کا احترام کیابلکہ وہ معاشرے میں بھی اعلیٰ مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔انکی اس کامیابی نے نہ صرف انکا اپنا بلکہ اپنے والدین کا نام بھی روشن کیا ہے۔