بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بستی کے ایک دوردراز گاؤں سہسراؤ میں کبھی سکول نہ جا پانے والی سونا دیوی کے بیٹے سرویش ورمانے ریاست میں میٹرک کے امتحان میں ٹاپ کیا ۔ سرویش کو نہ تو ٹیوشن کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی اس کو بجلی کی غیر موجودگی میں لالٹین میں پڑھنے کا کوئی افسوس ہے۔
ایک غریب کسان یا سبزی والے کے اس بیٹے کو سکول جانے اور آنے کے لیے ہر روز تقریباً 20 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا تاہم سرویش جہاں معاشرے میں آنے والی تبدیلی کی علامت ہیں وہیں سماج کو تبدیل کرنے کی تمنّا بھی رکھتا ہے۔
اتوار کو جاری ہونے والے یو پی بورڈ کے نتائج کے مطابق ہريّا کے جی ایس ایس سکول کے طالب علم سرویش نے 96.83 فیصد نمبر حاصل کیے ۔
ان کے سکول کے پرنسپل سبھاش تیواری نے ان کی کامیابی پرخوشي ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سرویش سے انھیں بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ سونا دیوی کہتی ہیں ’سرویش نے کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی۔ ہمیں بھی کبھی اسے پڑھنے کے لیے نہیں کہنا پڑھا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ مجھے پڑھ کر گھر کی حالت بہتر کرني ہے۔ سکول سے آتا اور پڑھائی میں لگ جاتا۔‘
سرویش کے گھر میں بجلی کبھی کبھی آتی ہے اور پڑھنے کے لیے وہ بجلی سے چارج ہونے والی لالٹین استعمال کرتے ہیں۔
سرویش کے والد سوامي ناتھ ورما ایک چھوٹے کاشت کار ہیں۔ ان کے پاس صرف ڈھائی بیگھہ زمین ہے اور اضافی آمدنی کے لے وہ سبزیاں فروخت کرتے ہیں۔
سونا دیوی کہتی ہیں ’پانچ سو روپے ماہانہ کی فیس دینا مشکل تھا لیکن سکول سے مدد ملی۔ کبھی تین چار ماہ فیس نہ دینے پر انھوں نے پریشان نہیں کیا۔ گنے کی ادائیگی ہوتے ہی ہم بھی ایک ساتھ فیس جمع کروا دیتے تھے۔‘
سرویش کے والد کہتے ہیں ’معاشی تنگی کے سبب میں نہیں پڑھ پایا تھا اس لیے سوچا اپنے بچوں کی زندگی سے اندھیروں کو دور کرنا ہے۔ بیٹے نے بہت بڑی خوشی دی ہے۔‘
سرویش اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے ماں باپ کی محنت اور سکول کے ماحول کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے سکول میں بہت اچھا ماحول ملا اور اساتذہ نے ہر ممکن تعاون کیا۔‘
ایک منتظم افسر بن کر معاشرے سے بدعنوانی دور کرنے کا خواب دیکھنے والے سرویش کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں رشوت خوری بہت عام ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ہمیں سوچنا چاہیے کہ اسے کس طرح دور کیا جائے۔ میرے گاؤں میں ہی عوامی تقسیم کے نظام کا حال اتنا برا ہے کہ جنہیں راشن ملنا چاہیے انھیں نہیں ملتا۔ یہ چیزیں تبدیل کرنی چاہییں۔‘
سرویش کو کرکٹ بہت پسند ہے۔ وراٹ کوہلی اور اے بی ڈيویليئرز ان کے پسندیدہ کھلاڑی ہیں لیکن وہ کرکٹ نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ ہاں اخبار میں اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے بارے میں ضرورپڑھتے ہیں۔
گزشتہ برس انہوں نے اپنے سکول میں ہوئی ایک مقابلے میں ایک ٹیبلٹ جیتا تھا۔ اسی ٹیبلٹ نے انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا سے جوڑا۔
وہ نئی معلومات کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ سوشل میڈیا پر نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ تو پتہ ہے کہ فیس بک ہوتا ہے جہاں لوگ اکاؤنٹ بنا کر چیٹ کرتے ہیں لیکن میں فیس بک پر نہیں ہوں۔ سونا دیوی نے بی بی سی کو فون پر بتایا ’ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ بیٹا اچھا کرے گا