تعلیم گاہوں کے اندر امن کا پیغام : پہلے اچھے انسان اور پھر ڈاکٹر انجنئیر بنو ، پروفیسر عزیز محی الدین

تعلیم گاہوں کے اندر امن کا پیغام : پہلے اچھے انسان اور پھر ڈاکٹر انجنئیر بنو ، پروفیسر عزیز محی الدین

امن وانسانیت کا پیغام تعلیم گاہوں تک پہونچانے کیلئے آج پروفیسر عزیز محی الدین نے پونے سے ممبئی کا قصد کیا۔ آپ نے سندیش ودیالیہ  کے ۳۰۰ ، گرونانک ہائی اسکول کے ۲۰۰ اور سینٹ جوزف ہائی اسکول کے ۲۰۰ نیز ودیا دیپ  کالج  کے۴۰۰ طلبا و طالبات سے خطاب کیا۔ پروفیسر محی الدین نے بچوں سے سوال کیا کہ تمہاری زندگی کا مقصد کیاہے ؟ بچوں کے مختلف النوع جواب سننے کے بعد آپ نے بتایا کہ سب سے اہم اچھا انسان بننا ہے اور باقی حیثیتیں ثانوی ہے۔ اس لئے اچھے انسان بنو ۔جانور ہم سے کمتر ہے اس لئے کہ نہیں بولتا لیکن بری بات بولنے والا انسان جانور سے بھی  بدتر ہے۔ پروفیسر صاحب کی باتوں سے طلباء کے علاوہ اساتذہ بھی متاثر ہوئے۔ ان پروگراموں کی تصاویر حسب ذیل ہیں :

آج کرلا کے مہارشٹر اسکول میں ڈاکٹر آمنہ نے طلباء و طالبات سے خطاب کرکے امن و انسانیت کا پیغام پہونچایا۔ اندھیری میں  ملت نگر کی خواتین کارکنان نے امن و انسانیت موضوع پر طلباء کے مقابلوں  اور لکچرس کی اجازت حاصل کرنے کی غرض سے ایچ وی پی ایس اسکول ،راج رانی اسکول اور انجمن اسلام یاری روڈ اسکول کا دورہ کیا  نیز پرنسپل اور دیگر استذہ کو مہم کی اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا ۔ان میں سے بیشتر نے اجازت مرحمت فرمادی  اور مہم کو پسند کیا۔  راج رانی اسکول کی پرنسپل نے متاثر ہوکر کہا آپ لوگ ہماری جوہو کی اسکول سے بھی رابطہ کریں  وہ انتظامیہ سے گفتگو کرکے اس کیلئے راہ ہموار کریں گی۔ اسی کے ساتھ ایس این ڈی ٹی کالج کی ریسرچ اسکالرورشا ٹھکر سے ملاقات کی گئی جو ورسوا پولس اسٹیشن کاونسلر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ مہم کی تفصیل سن کر انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ مجھے سدبھاونا منچ میں شامل ہوکر خوشی ہوگی۔  انہوں نے دیگرخواتین کے فلاحی اداروں سے رابطہ کروانے کی بھی پیشکش کی ۔ .

تعلیمی اداروں کا ایک پروگرام نالاسوپارہ کےاے ای  کالسیکر کالج آف کامرس اینڈ مینیجمنٹ  اور حارث کالج آف آرٹس  میں بھی ہوا ۔  یوم آزادی  کی تقریبات کے تحت منعقد ہونے والے اس پروگرام میں امن و انسانیت کے خطاب کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔  اس  پروگرام میں انتظامیہ کے نائب صدر جناب صغیر احمد ڈانگے  اورجناب  خالد چندےو سکریٹری نجیب چاورے موجود تھے۔ سابق صدر مدرس ڈاکٹر سنگھ نے بھی طلباء سے خطاب کیا۔ امن انسانیت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہم کےممبئی کنونیر ڈاکٹر سلیم خان نے کہا آج کل ہمارے اندر سے انسانیت ختم ہوگئی ہے اس لئے ہم لوگ سڑک پر پڑے ہوئے زخمی انسان کی مدد کرنے بجائے اس کی تصویر اور ویڈیو نکال کر فیس بک یا واٹس ایپ پر شئیر کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انسانیت ختم ہوجائے تو ابن آدم جانور بن جاتا ہے اور انسانی معاشرے میں جنگل راج  ہوجاتا ہے۔  جنگل میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوتی ہے لیکن مہذب  سماج میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔جس  معاشرے میں انسانیت، محبت ، ایثار وقربانی کے بجائے لالچ، دھوکہ فریب ، استحصال اور ظلم و جبر کا دوردورہ ورہ  ہو جائے وہاں سے امن امان غائب ہوجاتا ہے۔ آج کے معاشرے میں امن کا قیام نوجوانوں کی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے انسانیت کا فروغ لازمی ہے۔ اس پروگرام شرکاء کی تعداد تقریباً ۲۵۰ تھی۔   تصاویر حسب ذیل ہیں :

امراوتی کے سماج کاریہ مہاودیالیہ کے ایک طابعلم سنجئے گائیکے نے اسلامک سنیٹر  میرا روڈمیں فون کرکے مہم کی معلومات حاصل کی۔وہ اپنے کالج میں رفیق احمد خان صاحب کی تقریر سن کر متاثر ہوا تھا۔  گائیکے نے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کرنے کا عندیہ دیا ۔  ساکی ناکہ میں مہم کے پیش نظر مندر کے پروہت سے ملاقات کی گئی ۔ سانتا کروذ میں لوک ادھیکار منچ نامی  ویلفیئر ٹرسٹ  کے فاؤنڈر پریسیڈینٹ جناب انل نائر صاحب اور ممبئی حلقہ کےصدر جناب رفعت حسین صاحب سے ملاقات کرکےانہیں  ‘امن و انسانیت مہم’ کی  تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ جناب انل نائر صاحب نے اسے وقت کی اہم ضرورت قراردیا ہے  اور ۲۷ تاریخ کو امیر جماعت کے خطاب عام میں شرکت کا وعدہ کیا ۔ مقامی سدبھاؤنا منچ میں شامل ہونے کیلئے بھی یہ لوگ رضامند ہوئے ۔ مندرجہ ذیل تصویر میں  اشفاق احمد اور اشرف خان کے ساتھ جناب انل نائر اور رفعت حسین صاحب  دیکھے جاسکتے ہیں :

ممبئی کے مختلف علاقوں میں جہاں مہم کے بینرنظر آئے وہیں بھنڈی بازار اور مدنپورہ وغیرہ میں بضمن مہم منعقد ہونے والی کئی ہورڈنگس بھی دکھائی دئیے۔ اس مشاعرے میں شرکت کیلئے دہلی سے ادارہ ادب اسلامی کے نائب صدر انتظار نعیم صاحب خاص طور پر تشریف لارہے ہیں۔ مشاعرے کی تفصیل بتاتے ہوئے ادارے کے ذمہ دار اسلم غازی صاحب نے بتایا کہ  مہم کے حق میں سارے مہاراشٹر کا ماحول سازگار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے  کہ اردو کے شاعروں نے ملک و ملت کی نازک گھڑی میں ذمہ دارانہ کردار نبھایا ہے۔ اس روایت کو زندہ کرنے والے شعراء پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ جالنہ اور احمدنگر میں دو بڑے مشاعرے منعقد ہوچکے ہیں نیز دیگر مقامات پر تیاری زوروں پر ہے۔ ان میں سے ایک اہم مشاعرہ  ۲۶ اگست کی رات ۹ بجے ممبئی کے سیف ہال میں منعقد ہورہا ہے۔

Vedleggsområde

اپنا تبصرہ لکھیں