افکار تازہ
(حصہ دوم) ۔ عارف محمود کسانہ
بزم ادب برلن پچیس سال سے جرمنی میں اردو کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اس بزم کے جنرل سیکریٹری سرور غزالی بہت با اخلاق ، ملنسار اور باغ و بہار شخصیت ہیں۔وہ اردو افسانہ نگاری میں منفرد مقام رکھتے ہیں جبکہ جرمن زبان کے مترجم ہونے کے ناطے وہ جرمن ادب سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔ ان کے افسانوں اور مضامین کے چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے افسانے مختصر ہونے کے ساتھ ادبی اور فنی اعتبار سے اہم مقام رکھتے ہیں۔ “بکھرے پتے” اور “بھیگے پل” اپنی جگہ لیکن “دوسری ہجرت” ان کی بہت شاندار کتاب ہے۔ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کا سفر انہوں نے افسانوی طرز میں لیکن حقیقت پسندانہ انداز میں تحریر کیا ہے۔ بزم ادب برلن کے تحت ایک خوبصورت ادبی شام کے انتظامات کرنے میں سرور غزالی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بہت متحرک تھے۔ بھارت، برطانیہ، جرمنی اور سویڈن کے مندوبین جب پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچے تو بزم ادب کے صدر علی حیدر عابدی اور دیگر عہدیداروں نے پرتپاک استقبال کیا۔ علی حیدر عابدی کا تعلق امروہہ، ہندوستان سے ہے اور وہ طویل عرصہ سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ اردو سے محبت ان کا بنیادی وصف ہے، وہ شاعر اور نثر نگار ہیں۔ بزم ادب برلن ان کی صدارت میں بہت متحرک ہے اور اکثر اہم تقریبات کا انعقاد کرتی ہے۔اس روز کی ادبی نشست اولف پالمے ہال میں منعقد ہورہی تھی۔ سویڈن کے ہر دل عزیز سابق وزیر اعظم کے نام سے موسوم اس ہال میں تقریب کا منعقد ہونا اور بھی اچھا لگا۔ ادبی شام کی پہلی نثر ی نشست تھی جس میں مقالہ جات پیش کئے جانے تھے۔ سرور غزالی نے اس نشست کی نظامت کے فرائض سنبھالی اور بزام ادب برلن کے صدر علی حیدر عابدی کو اسٹیج پر بلایا جبکہ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام اس نشست کی صدارت کے منصب پر فائیز ہوئے۔ فہیم اختر، عارف کسانہ، سید اقبال حیدر، جمیل احسن اور نغمانہ کنول کو بھی اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی۔ بزم ادب کے صد ر علی حیدر عابدی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور بزم کی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کی۔ برطانیہ سے آئے ہوئے افسانہ نگار فہیم اختر نے اپنا ایک مختصر افسانہ پیش کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ راقم نے بچوں کے ادب کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دور حاضر میں بچوں کے ادب کے لیے بہت کم کام ہورہا ہے اس لیے ضرورت امر کی ہے کہ لکھنے والے اس طرف توجہ دیں۔ شرکاء کو جب یہ بتایا گیا راقم کی بچوں کے لیے کتاب ’’سبق آموز کہانیاں‘‘ اردو، انگریزی، عربی، ہندی، بنگالی اور نارویجین زبانوں میں شائع ہوچکی ہے اور بہت سی زبانوں میں ترجمہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ شرکاء میں موجود محترمہ افشاں صاحبہ نے ’’سبق آموز کہانیاں‘‘ کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کا عزم کیا۔انہوں نے اردو ادب میں ماسٹر کیا ہوا ہے اور اب جرمنی میں مقیم ہونے کی وجہ سے جرمن زبان پر بھی عبور رکھتی ہیں۔ ان کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے ان کا بہت مشکور ہوں۔ مقالہ جات کی نشست میں مہمان خصوصی جواہر لال نہرو یونیوسٹی دہلی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین نے دنیا بھر میں اردو کی پھیلی ہوئی بستیوں اور مہجری ادب کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور اس کوشش میں مصروف رہنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اردو مشاعرے کی تاریخ اور روایات پر مشتمل ایک پر مغز مقالہ پیش کیا جسے بہت سراہا گیا۔
مشاعرہ کی نشست کی نظامت مدبر آسان نے بہت خوبصورتی سے ادا کی۔ وہ خود بھی ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں۔ برمنگھم سے مہمان شاعرہ نغمانہ کنول نے مشاعرہ کی صدارت کی جبکہ ان کے ساتھ اسٹیج پر خواجہ اکرام، علی حیدر عابدی، طاہرہ رباب اور مایہ حیدر تشریف فرما تھیں۔ اس یادگار مشاعرہ میں جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان میں محمد ارشاد، عامر عزیز ، مایہ حیدر ، نغمان سرفراز ، مزمل لطیف، شاہ جی، سرور غزالی ،ذاکر رضوی ، انور ظہیر رہبر ، خواجہ حنیف تمنا ،اقبال حیدر،جمیل احسن، سید علی حیدر عابدی اور عارف نقوی شامل تھے۔ جناب عارف نقوی نے اپنے کلام کا آغاز بچوں کے لیے لکھی گئی ایک خوبصورت نظم سے کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔طاہرہ رباب نے جب مترنم آواز میں اپنا کلام پیش کیا تو حاضرین نے دل کھول کر داد دی۔ شعر و سخن میں شرکاء کی گہری دلچسپی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ برلن کی ادبی تنظیموں نے اردو کے فروغ کے لیے خوب کام کیا ہے۔ صدر مشاعرہ نغمانہ کنول ایک طویل عرصہ سے برمنگھم میں مقیم ہیں اور ان کے بارہ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ مشاعرے کا اختتام ان کے خوبصورت اور دلنشین کلام سے ہوا۔ تقریب کے میزبان سرورغزالی نے تمام شرکاء خصوصاََ دور دراز سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ادبی نشست میں کتابوں کی نمائش بھی گئی جس میں شرکاء نے گہری دلچسپی لی۔ بزم ادب برلن اور پاکبان انٹرنیشنل کے مدیر اور مقامی صحافی جناب ظہور احمد کی جانب سے ایک مقامی ریستوران میں مہمانوں کو عشائیہ دیا گیا۔پرتکلف عشائیہ میں سرورغزالی اور ان کی اہلیہ نغمہ تبسم، مقامی صحافی مطیع اللہ ، سہیل انور خان اور دیگر شریک تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر رضوان سے عربی زبان وادب کے حوالے سے بعض شرکاء نے سوالات کیے جن کے انہوں نے تسلی بخش جوابات دئیے ۔خوردونوش کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ رات گئے جاری رہا اور پھر سب شرکاء دوبارہ کہیں اور ملنے کی خواہش کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اس طرح کی محافل یورپ میں اردو ادب کے فروغ کے ساتھ ہماری تہذیب و تمدن اور درخشاں روایات کو آگے بڑھانے کا باعث ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے لکھنے والے بچوں اور نوجوانوں کے لیے بھی لکھیں تاکہ ادبی محافل میں ہماری نوجوان نسل کی بھی دلچسپی پیدا ہو۔ برلن میں تین دن کا یہ قیام بہت یاد گار تھا اور ہمیشہ یاد رہے گا۔