: جدید سائنسی دور میں اردو کیوں پڑھیں؟

– ڈاکٹر محمد طاہر قریشی –

سائنس ہمیشہ اپنی زبان میں سوچ کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور پیدا ہوتی ہے

اصل میں اس سوال کی بنیاد چند غلط فہمیوں پر ہے:

پہلی غلط فہمی: سائنس صرف انگریزی ہی میں پڑھی جا سکتی ہے۔

اگر واقعی ایسا ہے تو دنیا میں چین، جاپان، روس، اسرائیل، فرانس، اسپین، جرمنی، ملائشیا، کوریا، ہالینڈ، ڈنمارک، سویڈن سمیت متعدد ممالک نے سائنس میں ترقی کیسے کرلی؟ ان ممالک میں تو انگریزی ذریعۂ تعلیم نہیں ہے۔ وہاں پرائمری سے لے کر پی۔ ایچ۔ ڈی تک تمام تر تعلیم ان کی اپنی زبانوں میں دی جاتی ہے، جو بہرحال انگریزی نہیں ہے۔ ان ملکوں میں تین چار تو ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ سب سے حیرت انگیز مثال اسرائیل کی ہے۔ دنیا بھر میں امریکی لے پالک سمجھے جانے والے اس ملک میں شروع سے آخر تک ذریعۂ تعلیم عبرانی زبان ہے، جو ڈھائی ہزار سال پرانی لیکن محدود زبان تھی۔ وہ عبرانی زبان، جو تقریباً مُردہ ہوچلی تھی، اسے اسرائیلیوں نے ازسرنو زندگی بخشی اور تمام جماعتوں میں ذریعۂ تعلیم عبرانی کو نافذ اور رائج کردیا۔ وہ زبان جس کے جاننے والے پوری دنیا میں ایک کروڑ بھی نہیں ہیں۔

اگر انگریزی سائنسی ترقی کے لیے اتنی ہی ضروری تھی تو امریکہ کا بغل بچہ ہونے کے باوجود اسرائیل نے انگریزی کو بطور ذریعۂ تعلیم اختیار کیوں نہیں کیا؟ حالاں کہ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے امریکہ کی مزید حمایت اور مزید امداد بھی حاصل ہوجا تی، جو پہلے ہی کم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے 9 سائنس دان نوبیل انعام حاصل کرچکے ہیں۔

جاپان کو امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم میں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ اس کے باوجود جب امریکہ نے بطور فاتح قوم کے، وہاں اپنا نظام ِ تعلیم نافذ کرنے کی کوشش کی تو جاپانیوں نے مفتوح ہونے کے باوجود ایسا نہیں ہونے دیا۔ چینی زبان دنیا کی مشکل زبانوں میں سے ایک ہے، جو اوپر سے نیچے لکھی جاتی ہے۔ لیکن برطانوی تسلط کے باوجود انھوں نے اپنی زبان کی حفاظت کی اور انگریزی کو نہیں اپنایا۔ آج چین دنیا کی بڑی طاقت ہے۔ یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں کسی قوم نے غیر زبان کو اپناکر ترقی کبھی نہیں کی۔ ان واضح مثالوں کے باوجود ہماری ذہنی غلامی ختم ہی نہیں ہوتی۔ پچھتر سال سے ایک غیر زبان کو سینے سے لگائے ہوئے ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں، جہاں آزادی سے پہلے تھے۔

دوسری غلط فہمی: چوں کہ سائنس اردو میں نہیں پڑھی جا سکتی، اس لیے اردو پڑھنا بے کار ہے۔

آپ سب جانتے ہیں کہ علوم کی دو بڑی قسمیں ہیں: سائنسی علوم اور غیرسائنسی علوم

سائنسی علوم سے مراد ایسے علوم ہیں جن میں کسی نظریے کو تجربے کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔گویا سائنس کا انحصار دو چیزوں پر ہے: (1) نظریہ، اور (2) تجربہ۔ ترتیب میں نظریہ پہلے آتا ہے پھر تجربے کی باری آتی ہے۔ کوئی سائنس دان پہلے کوئی بات سوچتا ہے اور کوئی نظریہ قائم کرتا ہے، پھر اس کی عملی صورت تجربے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کس زبان میں سوچتا ہے؟

یقیناً اُس زبان میں جو اس کے دماغ میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ اس کے شعور اور لاشعور کی گہرائی میں اس کا وجود ہوتا ہے۔ چوں کہ سوچنے کا زیادہ تر عمل غیر اختیاری یا لاشعوری طور پر ہوتا ہے، اس لیے بے شک کوئی درجنوں زبانوں کا ماہر ہو، سوچنے کا عمل صرف ایک ہی زبان میں ممکن ہوگا، جو اُس کے لاشعور میں ہوگی۔ اب چاہے وہ زبان انگریزی ہو، فرانسیسی ہو، جاپانی ہو، چینی ہو، عربی ہو، روسی ہو یا اردو۔

رہا سوال یہ کہ سائنس اردو میں نہیں پڑھی جا سکتی، تو اب جب کہ کمپیوٹر پر اردو رسم الخط میں لکھنا عرصے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، اِن پیج سے گزرکر اب اردو ورڈ میں بھی آسانی کے ساتھ لکھی جاسکتی ہے۔ ہر قسم کا پروگرام اردو میں بھی بنایا جا سکتا ہے، یہ بات آج کے ترقی یافتہ سائنسی دور میں کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔ کیوں کہ اب سے دوسو سال پہلے، جب کتابیں بھی کم تھیں اور خود اردو بھی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی تھی، جتنی آج ہے، اس وقت 1825ء میں دہلی کالج قائم ہوتا ہے، جہاں سارے سائنسی مضامین اردو میں پڑھائے جاتے ہیں، اور اس کالج کے طلبہ کے معیار پر کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ یہ وہ دور ہے جب ہندوستان پر انگریزوں کا غلبہ قائم ہوچکا تھا اور تھوڑے عرصے کے بعد وہ باقاعدہ طور پر پورے ہندوستان کے حکمران بھی بن گئے تھے۔ لیکن پچاس سال سے زائد عرصے (1825ء تا 1877ء) میں خود انگریزوں کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ سائنس کی تعلیم اردو میں نہیں ہوسکتی۔

دوسری مثال جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن (1918ء) کی ہے، جس میں انجینئرنگ کی تعلیم اردو میں اور طب یعنی میڈیکل کی تعلیم بھی 1927ء سے اردو میں ہونے لگی تھی۔ اس یونیورسٹی کے طلبہ کی سائنسی مضامین کو سمجھنے کی صلاحیت کیا تھی؟ اس کے لیے پاکستان کے عظیم سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی گواہی ہی کافی ہے، جنھوں نے ایک انٹرویو میں یہ بتایا تھا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کی ممتاز جامعات کے ممتحن رہے ہیں اور انھوں نے اعلیٰ ترین جماعتوں کے پرچے چیک کیے ہیں۔ ان کے مطابق جس وضاحت کے ساتھ اور سوال کی روح کے مطابق جامعہ عثمانیہ کے طلبہ سوالات کے جوابات دیتے ہیں، دوسری جامعات کے طلبہ نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اردو میں جواب دیتے ہیں۔ انھیں یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ زبان غلط ہوجائے گی۔ جب کہ دوسری جامعات کے اکثر طلبہ انگریزی میں جواب دیتے وقت انگریزی جملوں کی درستی ہی میں اپنا وقت ضائع کردیتے ہیں۔

ایک اور مثال مشرقی پنجاب کے مشہورِ زمانہ انجینئرنگ کالج رُڑکی،کی ہے، جس میں 1935ء تک اردو میں انجینئرنگ پڑھائی جاتی تھی۔

آگرہ کے میڈیکل کالج میں 1938 ء میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن نہ تو رڑکی سے فارغ التحصیل انجینئروں کے پُل گرتے تھے اور نہ ہی آگرہ میڈیکل کالج سے پڑھے ہوئے ڈاکٹروں کے مریض غلط دوائوں سے مرتے تھے۔

ڈاکٹر احسان اکبر لکھتے ہیں کہ انگریزوں کے دور کے آخری زمانے میں انھیں دوسری زبانوں کے ساتھ اس زیادتی کا بھی احساس ہوچلا تھا کہ انھوں نے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بناکر شاید خوامخواہ یہاں کی زندگی میں ایک ناقابل ِ عبور خلا پیدا کردیا ہے۔ ہندو کالج دہلی میں اس کی باقاعدہ طور پر تحقیق کی گئی کہ کس زبان میں علم دینے سے یہاں کے بچے بہتر طور سے علم سے بہرہ وہ ہوسکتے ہیں۔ اردو، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں علم کی ترسیل کی ابتدا ہوئی۔ ہندی ذریعۂ تعلیم کے ذریعے کامیاب طلبہ کا تناسب 21 فی صد کے قریب تھا،انگریزی ذریعۂ تعلیم میں 34 فی صد اور اردو کے ذریعے علم پڑھنے والے طلبہ کی کامیابی کا تخمینہ 70 فی صد کے قریب تھا۔(مشمولہ: اخبار ِ اردو، اگست 2019ء،ص 17)

تیسری غلط فہمی: انگریزی ہمیشہ سے سائنس کی زبان رہی ہے۔

بعض ذہنی غلاموں کا یہ خیال بدترین مرعوبیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انگریزوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اس خیال کی نفی ہوتی ہے۔ جب چند سو سال پہلے فرانس کے علاقے نارمنڈی سے فوجیں اٹھیں اور انھوں نے انگلستان پر قبضہ کرلیا تواُس دور میں انگریز قوم فاتح فرانسیسی قوم اور فرانسیسی زبان سے اتنی متاثر اور مرعوب ہوچکی تھی کہ وہ اپنی زبان انگریزی کو نفرت کی نظر سے دیکھتی تھی اوران کا ہر فرد فرانسیسی میں بول چال اور لکھنے پڑھنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنے مضمون ’’اردو ذریعۂ تعلیم‘‘ میں ایک انگریز پروفیسر البرٹ ہائو کی کتاب ’’اے ہسٹری آف دی انگلش لینگویج‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1150ء سے 1500ء تک کا یہ زمانہ انگریزی زبان کی بدبختی کا زمانہ تھا۔ اس دور میں انگریزوں نے سائنس میں کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ یہ ترقی اُس وقت شروع ہوئی، جب انگریزوں نے اپنی زبان کو اہمیت دینا شروع کی اور انگریزی زبان کو فرانسیسی زبان کے اثرات سے آزاد کرنے کی سعی کی۔ چناں چہ فرانسس بیکن (1561ء۔1626ء) اور بعد میں عظیم سائنس دان نیوٹن (1642ء۔1727ء) اس خواہش ِ آزادی کے دور کے لوگ تھے جن کی مثال پر بعد میں آنے والے سائنس دانوں نے انگریزی زبان کو سائنس کی زبان بنا دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج جس انگریزی کی سائنسی برتری کی شہرت ہے، یہ برتری ہمیشہ سے نہیں تھی۔ انگریزی اُس وقت تک سائنس کی زبان نہیں بن سکی جب تک وہاں کے لوگوں نے اپنی زبان میں سوچنا اور تجربہ کرنا شروع نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس ہمیشہ اپنی زبان میں سوچ کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور پیدا ہوتی ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ جب نیوٹن کے سر پر سیب گرا تھا، تو کیا اُس نے فرانسیسی میں سوچا تھا کہ سیب نیچے ہی کیوں گرا، اوپر کیوں نہیں چلا گیا؟

چوتھی غلط فہمی: اردو میں سائنسی اصطلاحات نہیں ہیں، اس لیے پہلے سائنسی اصطلاحات کے ترجمے کیے جائیں، ان کو رائج کیا جائے تب کہیں جاکر اردو میں سائنس کی تعلیم ممکن ہو سکے گی۔

اتمام حجت کے لیے اسے درست مان بھی لیا جائے، تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ علمی اصطلاحات کا خوامخواہ ترجمہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں جوں کا توں بھی لیا جا سکتا ہے۔آخر انگریزی کی اصطلاحات کون سی اُن کی اپنی ہیں! زیادہ تر یونانی اور لاطینی ہیں۔ تاہم اصل بات یہ ہے کہ 1973ء کے آئین میں پندرہ سال کے اندر اردو کو نافذ کرنے کی بات کی گئی تھی۔ چھے سال بعد اس مقصد کے لیے ایک ادارہ مقتدرہ قومی زبان (جسے فروغ ِقومی زبان کا نام دے کر اس ادارے کی قوتِ نافذہ ہی ختم کردی گئی) قائم کیا گیا، جسے اردو میں سائنسی و فنی اصطلاحات تیار کرنے کا کام سونپا گیا۔ یہ مدت 1988ء میں پوری ہوگئی۔ اس دوران میں مقتدرہ نے اردو اصطلاحات سازی کا کام بخوبی سرانجام دے دیا تھا اور 1989ء میں مقتدرہ کے صدر نشین ڈاکٹر جمیل جالبی نے اُس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے مل کر انھیں اطلاع بھی دے دی تھی کہ اب اردو نفاذ کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس کے نفاذ کی مدت میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر دس سال کا اضافہ کردیا گیا۔ یہ مدت بھی 1998ء میں پوری ہوگئی۔ اس کے بعد سے آج تک کسی بھی حکومت نے اردو کے نفاذ کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے کی ہی نہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابیں لکھنے کا کام سولہویں صدی ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ بعد ازاں جامعہ عثمانیہ نے خاص طور پر وضع اصطلاحات پر توجہ دی۔ اب تو بقول ماہر لسانیات ڈاکٹر رئوف پاریکھ: سائنسی اور فنی موضوعات پر اردو میں بلامبالغہ ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیادہ نہیں ایک تو حمیدالدین شاہد کی کتاب ’’اردو میں سائنسی ادب‘‘ اور دوسری ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی ’’اردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ‘‘، صرف یہ دو کتابیں ہی دیکھ لی جائیں تو یہ غلط فہمی خودبخود دور ہوجائے گی۔

بات دراصل یہ ہے کہ ہماری ذہنی غلامی ہمیں بار بار یہ بات باور کراتی رہتی ہے کہ انگریزی زبان ہماری نجات دہندہ ہے۔ اسے اپنائے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ اس بات کو اتنے تواتر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ خواص تو خواص عوام بھی اس فریب پر یقین کرنے لگے ہیں، اسی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے داخلے نام نہاد ’’انگلش میڈیم‘‘ اسکولوں میں بڑے فخر سے کرواتے ہیں۔ یہ لطیفہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ لوگ اُس شخص کو پڑھا لکھا مانتے ہی نہیں ہیں، جو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی کے دوچار غلط سلط جملے نہ بول لے۔

باقی رہی اردو زبان کے نفاذ کی بات، تو اس معاملے میں مولانا مودودی صاحب نے بہت پہلے یہ بھانپ لیا تھا کہ اس راہ میں رکاوٹ کون سا طبقہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اردو زبان کے راستے میں اصل رکاوٹ صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا بالائی طبقہ چوں کہ خود انگریزی ماحول میں پلا ہوا ہے اور اردو لکھنے بولنے پر قادر نہیں ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ اس کے جیتے جی ساری قوم پر انگریزی زبان مسلط رہے۔ پھر یہ لوگ اپنی اولاد کی بھی انگریزیت ہی کے ماحول میں پرورش کررہے ہیں اور اس بات کا انتظام کررہے ہیں کہ حکو مت کی باگ ڈور آئندہ انھی کی نسل کے قبضے میں رہے۔‘‘

(رسائل و مسائل چہارم، ص 27)
👆English is an international, much more developed and spoken in the global village. For the transfer of knowledge and development of national Urdu/local regional languages it will be beneficial to translate more and more literature (scientific or unscientific) into them.🙏

اپنا تبصرہ لکھیں