حمیدہ معین رضوی کی شاعری کے شعری مجموعہ ’’ ڈھلتی شا م کے سائے ‘‘کی پر وقار تقریبِ رونمائی 

dhalti sh
پروگرام کی صدارت تسلیم الہی زلفی نے جبکہ چیف گیسٹ شفیق مراد تھے
فرزانہ فرحت نے نظامت کے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دئے
انکی شاعری میں مضمون کی گہرائی ، وسعت اور بالغ النظری انہیں اپنے عہد کے شعراء میں ممتازمقام عطا کرتی ہے (شفیق مراد)
(رپورٹ ۔کوثر علی )یہ تقریب ۴ مئی بروز بدھ کنگزٹن سرے میں منعقد ہوئی، اس کا انعقادادبی اور ثقافتی انجمنKingston Women Association UKکے زیرِ اہتمام ہوا۔اسکی صدارت کینیڈا کے شاعر، نقاد ،تجزیہ نگار اور مشہور ادبی شخصیت تسلیم الٰہی زلفی نے کی، جبکہ مہمانِ خصوصی جرمنی کی مشہور ادبی شخصیت اور شاعر شفیق مراد صاحب تھے۔نظامت کے فرائض لندن کی ابھرتی ہوئی صاحب ِ طرز اور باشعور شاعرہ فرزانہ فرحت نے سر انجام دئیے ،
حمیدہ معین رضوی اور انکی شاعری کا تعارف کراتے ہوئے فرزانہ فرحت نے کہا۔کہ حمیدہ معین پیدائشی شاعرہ ہیں ۔قدرت کی اس عنایت کا عملی اظہار بارہ سال کی عمر میں ہوا جب انہوں نے پہلی نظم لکھی ۔جبکہ سولہ سال کی عمر سے مختلف ادبی جراید ورسائل میں انکا کلام اور نثر پارے شائع ہونے شروع ہوئے ۔ وہ بہت کم لکھتی ہیں مگر جو کچھ لکھتی ہیں انفرادیت کی چھاپ، فکر کی گہرائی اور اظہارکی پختگی سے لکھتی ہیں انکی پچپن سالہ ادبی زندگی ان کے کلام میں بولتی نظر آتی ہے ۔آپ لوگ کتاب پڑھ کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں ،میں اتنا ہی کہنا کافی سمجھوں گی کہ جموں کشمیر یورنیورسٹی کے اردو کے پروفیسر ڈاکٹرپریمی رومانی نے اپنی کتاب میزان میں ان کی شاعری پہ سیرحاصل مضمون لکھا ہے اورشاعری پہ ہندستان کے چوٹی کے نقادعلیم صبا نویدی نے اپنی کتاب ’’پاکستانی ادب ‘‘میں حمیدہ معین رضوی کوپاکستان کی چوٹی کی شاعرات میں شامل کیاہے اورانکی شاعری کو ادب میں نمایاں اور منفردقرار دیا ہے۔
اس کے بعد فرزانہ فرحت نے حمیدہ کی گہری دوست کوثر علی کو اظہارِ خیال کے لئے بلایا اور کہا کہ کوثر علی واحد خا تون ہیں جنھوں نے اردو میں ڈرامے لکھے، اوران میں سے چنداپنے اسکول میں سٹیج بھی کئے ۔انکے ڈراموں کی کتاب ’’آئینہِ حیات‘‘ہے ۔ اس سے قبل شاہدہ احمد نے بھی کچھ ڈرامے لکھے تھے۔مگرکوثر علی نے پوری کتاب لکھی ہے۔کوثر علی نے کہا : حمیدہ معین رضوی میری بہت اچھی دوست ہیں۔تحریروں سے زیادہ میں حمیدہ معین رضوی کی شخصیت سے متاثر ہوں۔وہ ایک حق گو ،حق پرست ،پر خلوص ،ظاہر ا و رباطن میں ایک جیسی ہیں۔وہ نقصان اٹھالیتی ہیں مگر جھوٹ نہیں بولتیں نہ مفاد اور شہرت کے لئے
خوشامد کرتی ہیں۔انکا مقولہ ہے ’’ عطر آن ہست کہ خود بوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ ۔ عطر اسے کہتے ہیں جواپنی خوشبو سے عیاں ہو تا ہے نہ کہ فرو خت کرنے والاآوز لگاکر بیچے۔وہ فلسفی مزاج ہیں اور ہر مسئلے کو اصول کے میزان پر تول کر اس کا حل نکالتی ہیں ۔میری انکی دوستی پچیس برس پرانی ہے مگر اس میں پختگی اور گہرائی اس وقت آئی جب کوئی دس سال قبل ہم دونوں نے مل کرگولڈ سمتھ یونیور سٹی آف لندن کے زیرِ ہدایت اردو کے اساتذہ کی مدد کیلئے اردو زبان کے تدریسی نصاب کا رہنما تحریر کیا ،جسے کئی سکولوں میں تدریسِ اردو کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔
حمیدہ کے اندر مروت بہت ہے جب بھی کسی کو ضرورت ہوئی انکو مدد پہ مستعد پایا ۔ہر ایک کے دکھ درد کو سننے اور امکان بھر مدد پہ انھیںآمادہ پایا،وہ بوقتِ ضرورت بہت مفید مشورے بھی دیتی ہیں ۔ان کی تنقید بھی مجھے بہت پسند آئی مگر بہت کم لوگوں نے اس کی اہمیت محسوس کی۔ مجھے انکی شاعری بھی بہت پسند ہے، اور وہ تو اپنے عہد کے شعراء میں ایک مقام رکھتی ہیں اور ادب میں بہت سینیر ہیں۔قاعدے اور اصول کے لحاظ سے ادب میں سینئیر وہ ہوتا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اسکی ادبی تخلیق کے کسی بڑے ادبی پرچے میں چھپنے کی تاریخ اور عہدکونسا ہے ۔ اگراس اصول کے تحت دیکھیں توحمیدہ معین رضوی کی پہلی غزل۱۹۶۲ ؁ میں اور انکا پہلا افسانہ ۱۹۵۷ ؁ میں شائع ہوا۔ یوں انکے افسانے کی عمر۵۹ برس اور شاعری کی عمر۵۴ برس ہوئی ، اس لحاظ سے حمید ہ معین رضوی بہت ہی سینئیرشاعرہ ہیں اوربہت اچھی شاعری لکھتی ہیں۔
کوثر علی کے بعد اظہارِ خیال، کیلئے جنا ب ، غا لب ماجدی کو بلایا گیاغالب ماجدی، بزمِ اردو کے ر وحِ رواں ہیں اس بزم کی بنیادماجدی کے قریبی عزیزسیدحسن مرحوم کی ڈالی ہوئی ہے، جو ایک باذوق اور اردو سے محبت کرنے والے انسان تھے اور بی۔بی۔سی۔ اردو سروس سے وابستہ تھے۔ماجدی صاحب نے معذرت کرتے ہوئے فر مایا کہ ’وقت کی کمی کی وجہ سے میں باظابطہ کچھ لکھ نہیں سکا مگر میں نے حمیدہ کی کتاب پڑھی اوران کی اس کتاب میں سے اپنی ایک پسندیدہ نظم سنانا پسند کروں گا۔پھر انہوں نے حمیدہ ر ضوی کی نظم ’ زنداں کے روزن ‘ سے سنا ئی ا س میں نازک قسم کی جدیدیت بھی ہے اور کامیا بی سے سرریلزم بھی برتا گیا ہے۔لوگوں نے دل لگاکر یہ نظم سنی، پسند کی ،اور ماجدی صاحب کے انتخاب کی دل کھول کر داد دی۔
ماجدی صاحب کے بعدجرمنی کے مشہور شاعر او ر وہاں کی ادبی تقریبات کے روحِ رواں جنا ب شفیق مراد صاحب تشریف لائے۔انھوں نے فرمایا ’’حمیدہ معین رضوی کی شاعری میں زندگی کے سبھی رنگ ملتے ہیں۔انکی شاعری ان کے طویل عرصہ پر محیط تجربات و مشاہدات اور مطالعہ کی عکاس ہے ۔زندگی کے حقائق اور تلخیاں اور انکے پس منظر میں چھپے اسرا روموز اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں ۔انکی شاعری میں مشکل الفاظ کا استعمال قدرت کی وہ ودیعت ہے جو انکے ذخیرہ الفاظ پر گرفت کی ترجمانی کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مضمون کی گہرائی ، وسعت اور بالغ النظری انہیں اپنے عہد کے شعراء میں ممتازمقام عطا کرتی ہے ۔شاعری ہی نہیں بلکہ نثر میں بھی انکا شمار اساتذہ کی فہرست میں ہوتا ہے ‘‘۔
سب سے آخر میں تقریب کے صدر تسلیم الہٰی زلفی صاحب تشریف لائے، جن کا تعارف یوں کرایا گیا:
زلفی صاحب کی ایک کتاب کا بہت شہرہ ہے جو ہے ’ فیض احمد فیض بیروت میں ‘‘ ۔ انکی شاعری کی کئی کتابیں آچکی ہیں اور سب سے اہم انکی کتاب ’’ مغربی دنیا کے اہل قلم ‘‘ ہے ، جو کہ سات سو صفحات پر مشتمل ہے جس میں تمام اہم شخصیات خو اتین و حضراتِ کے اوپر تجزیاتی اور تنقیدی مضامین زلفی صاحب نے لکھے ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔یہ ہیں تسلیم الٰہی زلفی ، جو آج کی تقریب کی صدا رت کے لئے تشریف لائے ہیں۔
انہوں نے اپنی گفتگو کا آغازیہ کہتے ہوئے کیا کہ شاعری تو ہر دوسرا آدمی کرلیتا ہے لیکن حمیدہ معین رضوی کی علمی صلاحیتوں کی قدر و قیمت کئی گنا زیادہ ہو گئی جب سے انکی ’تنقید ‘کی کتاب سامنے آئی۔ حمیدہ معین رضوی نے اگرچہ بہت نہیں لکھامگر ا ہمیت اور کیفیت کے لحاظ سے یہ انکے بیشتر معاصرین کی ضخیم کتابوں پہ بھاری ہیں۔حمید معین رضوی کے تنقیدی ذ ہن کی جودت اور انفرادیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ فکرو خیال کی ر وندی ہو ئی راہوں پہ چلنے کے حق میں نہیں وہ منزل رسی کے لئے اپنی راہیں خودتلاش کرتی ہیں،اور ہجوم سے الگ پوری تمکنت ا ور اعتماد کے ساتھ ان پر گامزن ہوتی ہیں۔انکے غیر معمولی اعتماد کا سب سے بڑ اسبب یہ ہے کہ وہ منزل یا اپنے ذوقِ سفر کے بارہ میں کسی اندیشے یا تذبذب یا خوف میں مبتلا نہیں ہیں،بلکہ انکے تمام نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہیں ۔حمیدہ رضوی اپنی فکرِ رسا اورذہنِ رسا سے تخلیق پہ حا وی ہو جاتی ہیں وہ دیگر نقادوں کے خلاف یہ کام بڑے مستحکم طریقے سے انجام دیتی ہیں۔حمیدہ نام نہاد بڑے نقادوں کی طرح علمیت کی نمائش نہیں کرتیں۔ بلکہ ایک اچھے نقاد کی طرح فن کے تجزیئے اور تحلیل میں ڈوب جاتی ہیں۔جن لوگوں نے اس کتاب کا مطا لعہ کیا ہے اور اسکو سمجھنے کا شعور بھی رکھتے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ حمیدہ سخت سے سخت اختلافی مسائل اور جارح سے جارح تنقیدی رویوں پربھی جھنجلاہٹ اورنفرت کو قریب نہیں آنے دیتیں، انھیں جو کچھ کہنا ہے سنجیدہ استدلال سے دیانت و بے خوفی سے کہہ جاتی ہیں،انکی انکساری ا ور نرمی قاری کو انکی بات سننے پہ مجبور کر دیتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کو حمیدہ کی تنقید پسند نہیں وہ یا تو کم فہم ہیں اور یاتنقید کی ابجد سے ہی واقف نہیں، یا احساسِ کمتری کا شکار ہیں ، یا پھر سیدھے سیدھے حاسد ہیں عو رتوں میں حسد کا مادہ زیادہ ہوتا ہے ، مگر مرد بھی حسد کر سکتے ہیں ۔میرے لئے اس کتاب اور حمیدہ رضوی کی ذہانت و صلاحیت کا ذکر کرنااسلئے ضروری تھا کہ یہاں اور امریکہ میں کوئی مرد بھی ’ تنقید‘ میں انکے مقابلے کا نہیں ہے جبکہ لندن والوں کا رویہ انھیں نظر انداز کرنے کا ہے۔تنقید انکا کار نامہ اور شاعری ان کافن ہے ۔وہ ایک کامیاب شاعرہ ہیں، اور نمایاں اور اہم شاعرہ ہیں انکی غزلوں میں کوئی سقم نہیں روح کو چھو لینے کی قوت ہے ۔ مگر نظمیں بہت آگے کی چیز ہیں،مکمل فن پارہ محسوس ہوتی ہیں ۔ان میں فنی تکمیل ،فلسفیانہ گہرائی، ندرت اور انفرادیت ہے۔جہاں وہ ہجوم سے بالا اور علٰحیدہ نظر آتی ہیں۔انہوں نے مذید فرمایا:
میں انھیں مشورہ دوں گا۔ کہ وہ اپنے خلاف محاذ بناے والوں سے بالکل خوفزدہ نہ ہوں۔یہ لوگ کم فہم اوراحساسِ کمتری کے مرض میں مبتلا ہیں۔آپ اپنا کام کرتی رہئے‘‘۔انکی تقریر بہت پسند کی گئی کیونکہ پیرائے اظہارمنطقی تھا زلفی صاحب ویسے بھی تبصروں اور تجزیوں کے ماہر ہیں شاید سینکڑوں کتابوں پہ تبصرے اور سیکڑوں مصنفین کی طرزِ نگارش پہ انہوں نے تجزیہ کیاہے۔
زلفی صاحب کی صدارتی تقریر کے بعد مشاعرہ ہوا جس میں محمودعلی، عابدہ لال، ڈاکٹر علی خان،فرزانہ فرحت،غالب ماجدی، نجمہ عثمان ،سوہن راہی،حمیدہ معین رضوی۔شفیق مراد،اورتسلیم الٰہی زلفی تھے ، بلند معیارِ کلام سے سامعین و حاضرین بہت محظوظ ہوئے ۔سارا پروگرام انتہائی دلچسپ رہا ،کہیں اکتا ہٹ نہیں آئی ۔ مشاعرے کے اختتام پر خواتین کی تنطیم کی نائب صدر نیلوفر ضیا اّلدین نے اپنی اورایسوسی ایشن کی صدر کی طرف سے شکریہ اداکیااس کے بعد پُر تکلف کھانے کا انتظام تھا مہمانوں پروگرام کے انتظام و انصرام کو سراہا اس طرح یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی ۔
رپو رٹ : کوثر علی۔لندن
اپنا تبصرہ لکھیں