دنیا کی معیشت کااصل ٹیسٹ اور پسینہ

کورونا وائرس سے چالیس سے اسی فیصد آبادی انفیکٹ ہوجائے گی، ہاں نیویارک کے گورنر نے یہی بتایا ہے۔ اگر نیویارک میں ایسا ہوگا تو ترقی پذیر ممالک میں بات کہاں تک پہنچے گی؟ جب بھی ورلڈ آرڈر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ کون سا پیرامیٹر ٹاپ پر ہوتا ہے یعنی جانچنے کا آلہ۔ مجھ سے پوچھیں تو معیشت ٹاپ پر ہونی چاہیے اور معیشت کے لیے غیر یقینی صورت حال ایسے ہی ہے جیسے صحت کے لیے وائرس۔ایک امریکی معاشی ایکسپرٹ سے پوچھا گیا کہ اس کے خیال میں ہمارا بینکنگ سیکٹر محفوظ ہے؟ موصوف نے بتایا کہ امریکہ نے بینکینگ سیکٹر کی بیک اپ کا خاطر خواہ سامان کررکھا ہے۔ اگر بینکنگ سیکٹر کولیپس کرتا ہے تب عالمی معیشت مکمل طور پر کولیپس کرجائے گی۔ کوئی بھی اتنی مایوس کن پیشن گوئی نہیں کرنا چاہتا۔

تصویر کا روشن پہلو دیکھنا چاہیے۔ ساری فکشن فلمیں یہی دکھاتی رہی ہیں کہ وباء آگئی ہے اور امریکی سائنسدان دن رات کام کررہے ہیں۔ ویکسین ایجاد ہوناابھی باقی ہے۔اس طرح کی ساری فلموں، ڈراموں، لٹریچر نے ہمیشہ ہیپی اینڈنگ دکھائی ہے۔ آئیے مثبت سوچیں اور امید کی بات کریں۔ زندگی امید ہے اس وقت تک جب تک موت آجاتی۔کیا آپ تیار بیٹھے ہیں کہ لاک ڈاون چلتا رہے گا اور سال بیت جائے گا۔ اور پھر ویکسین ایجاد ہوگی اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ ترقی یافتہ دنیا جو لگتا تھا ہر بات پر قدرت رکھتی ہے۔ کیوں کر بے بس ہوگئی ہے؟ ورلڈ وار ٹو کے بعد جس بات پر ترقی یافتہ دنیا بہت فحر کرتی تھی وہ انکی ویلفیئر سٹیٹ اور حفظان صحت کا نظام تھا۔ وزارت صحت پر تو براہ راست طوفان برپا ہوا ہے اور سوال یہ ہے کہ ویلفیئر سٹیٹ بچ پاتی ہے کہ نہیں۔ جب حکومت شہریوں کو ایک لفظ کہہ دے کہ گھروں کے اندر رہو تو گویا جس کی نوکری گئی۔ اس کا تاوان حکومت پر ۔ جس کا ایک تیلہ گیا حکومت کو ملا جلا کر ا س سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑے گا۔ ترقی پذیر ملکوں میں مختلف کہانی ہے۔ لوگ ہی بہت زیادہ ہیں۔ اور ان کا گھروں کے اندر لمبے عرصے تک بند رہنا نا ممکن ہے۔ اور رہیں گے بھی کیوں؟ حکومت ان کا معاشی نقصان کدھر سے پورا کرے گی؟ جو لوگ صحت مند ہوکر باہرنکلیں گے۔ کیا وہ پھر سے انفیکٹ نہیں ہوں گے؟ کرونا وائرس سے مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ جب ایک صحت مند شخص ماسک پہنتا ہے تو وہ آکسیجن کا راستہ کسی حد تک روک لیتا ہے۔ منہ سے نکلتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماسک سے نکلنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر مریض کو پہلے سے سانس لینے میں دشواری ہے تو گویا ماسک پہننے سے اس نے اپنے سانس لینے میں مزید دشواری پیدا کرلی۔

بھارت کے ایک سو تیس ملین لوگ لاک ڈاون نہیں ہوسکتے۔ بمبئی شہر سے جڑی ہوئی کچی آبادی میں پندرہ لاکھ غریب لوگ رہتے ہیں۔ انہیں کیا پتہ لاک ڈاون کیا ہے۔ شا م کو روٹی کما کر لاتے ہیں اور اسی طرح کی کچی آبادیاں بڑے بڑے شہروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ خیر بیماریوں، کیڑوں مکوڑوں اور وائرسز سے ان لوگوں کی دیرینہ دوستی ہے۔ خاک نشینوں کا کیا بگاڑے گی خاک؟

ہمارے ایک مغربی دوست کو صفائی ستھرائی کا بہت کریز تھا۔ ہم نے موصوف سے عرض کی کہ آپکو معلوم ہے پسینے کی اپنی کوئی بو نہیں ہوتی۔ تو پھر پسینے سے کون سی بو ء آتی ہے؟ ہم نے ان سے عرض کی کہ آپ گوگل پر دیکھیے کہ پسینے کی کوئی بوہوتی ہے؟ ہاں جی۔ پسینے میں جو بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ انکے فضلے کی بو اصل میں پسینے کی بو ہوتی ہے۔ ہمارے مغربی دوست کافی سر پٹائے۔ صفائی ستھرائی کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے لیکن جو میدان جنگ میں پیدا ہوتے ہیں اور میدان جنگ میں پلتے بڑھتے ہیں ان کے لیے جنگ اتنا بڑا سرپرائز نہیں ہوتی۔ جتنا باقیوں کے لیے ہوتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے لوگ کب تک حکومت کی بات سنیں گے؟

اور ادھر یہاں حکومت یا سٹیٹ کو پہنچنے میں شب و روز گزر جاتے ہیں۔ وائرس نے کیا کرنا ہے؟ وائرس کا ٹیسٹ ہوتا کہاں ہے؟ یہ ٹرائیبل لوگ ہیں۔ نیچر کے بہت قریب رہتے ہیں۔ حکومت کو ان تک پہنچنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ کسی کو کچھ ہوگیا حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ گڑبر کی تو ڈنڈے بردار سپاہی بھیجیں گے جو کان پکڑوائیں گے۔ ڈنڈے بھی مار سکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں اگر ایک بالغ آدمی جو اٹھارہ سال سے اوپر ہوتا ہے اگر ترقی یافتہ ملک میں باوردی سپاہی کان پکڑوائے تو اس بالغ آدمی کے پاس کیا چارہ جوئی ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ محکمے یا حکومت کو بھاری تاوان پڑ سکتا ہے۔ تھپڑ ماردینا اور وہ بھی گواہوں یا ویڈیو کے ذریعے ثابت بھی ہوجائے تب تو سٹیٹ کو تاوان بھرنا پڑے گا۔

ویسا کان پکڑوانے سے یا تھپڑ رسید کرنے سے فرق کیا پڑتا ہے؟ زخم یا سکار دو طرح کے ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسرا نفسیاتی۔ کان پکڑوانے سے نفسیاتی چوٹ پڑتی ہے۔ تھپڑ سے بھی جسمانی کم نفسیاتی زخم زیادہ پڑتا ہے۔ لیکن اگر جسم اور نفسیات پر پہلے سے بہت سکار ہیں تو اتنا فرق نہیں پڑھتا ہوگا شاید۔ کچی آبادیوں والے شاید نیور مائنڈ ہوتے ہیں کیونکہ شاید نیچر کے زیادہ قریب رہتے ہیں اس لیے زخم انکی زندگیوں کا حصہ ہیں۔ کوئی تاوان نہیں۔ سب چلتا ہے۔ تو پھر خطرے میں کون ہے؟

ولڈ آرڈر کو خطرہ ہے؟ ہر پاور بیس کے لیے خطرہ ہے کہ وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہ پائے گا کہ نہیں؟سویڈن نے فیصلہ کیا کہ لوگوں کو بالکل کھلا چھو ڑ دیا جائے۔ سائنسدانوں نے کہا کہ بند کرو۔ قیادت نے جواب دیا کہ لاک ڈاون یا سوشل فاصلہ جو لمبے عرصے کا لگ رہا ہے۔ قابل عمل ہے ہی نہیں۔ لوگوں میں بھی کوئی خوف و ہراس نہیں ہے۔ سویڈن والے پاگل ہیں کیا؟ معاشی کلیپس خود کشی کے مترادف نہیں ہوتا کیا؟ امریکی صدر اسی بات پر قائل ہیں کہ لاک ڈاون کھول دو۔ ورنہ امریکہ جسے لوگ امریکی لائف سٹائل کے طور پر جانتے اور مانتے ہیں رہے گا ہی نہیں۔ کیا لاک ڈاون ضروری تھا۔ یا حکومتوں پر پریشر تھا کہ ردعمل دکھائیں۔ ایک ملک کا معاشی کلیپس زیادہ خطرناک ہے یا چند فیصد لوگوں کی اضافی موت؟ ناروے میں اگر ڈیڑھ سو آدمیوں کی موت ہوئی ہے تو سویڈن میں تین سو کی ہوئی ہے۔ سویڈن نے لاک ڈاون کیا ہی نہیں اور اب سیاسی فیصلے میڈیکل ایکسپرٹس کی رائے سے مختلف ہیں۔ سوشل ڈسٹینسنگ سمجھ میں آنے والی بات ہے، لاک ڈاون اور وہ بھی لمبا قابل عمل ہے کیا؟۔

اپنا تبصرہ لکھیں