پروفیسر سلیم نے کہا کہ ’’ سرکاری خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کے باوجود بجٹ میں contractionary اپروچ کا مظاہرہ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور عدم مساوات کی صورت حال پیدا کرسکتا ہے۔ سماجی شعبے کے لیے مختص رقم میں کمی کی گئی ہے۔ مثال کے طورپر بے روزگاری بہت ہے، پھر بھی منریگا کے لیے رقم میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ منریگا کو مسلسل نظر انداز کرنا افسوسناک ہے۔ اسی طرح مختلف سبسڈیز میں کٹوتی کی گئی ہے، جیسے فوڈ سبسڈی، فرٹیلائزر سبسڈی اور پٹرولیم سبسڈی وغیرہ۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ بجٹ کارپوریٹس کے حق میں محسوس ہوتا ہے۔ جبکہ کارپوریٹ ٹیکس ریونیو 17 فیصد ہے جو کہ انکم ٹیکس 19 فیصد سے کم ہی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ٹیکس کا زیادہ بوجھ اب بھی غریب اور متوسط طبقے پر ہی ہے۔ ’’ نئی روزگار پروتساہن یوجنا‘‘ کے تحت روزگار پیدا کرنے کے نام پر کارپوریٹس کو بھاری سبسڈی دی جارہی ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ فلاح و بہبود کے نام پر فنڈز فراہم کرنے کےلئے بدعنوانی پر لگام کسنے کے ساتھ ہی امیروں پر ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کو کم کرکے مہنگائی کو کم کرنے کی حکمت اختیار کی جانی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ دلتوں، پسماندہ طبقات، ایس سی ، ایس ٹی اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔ ہمارے بجٹ کا 19 فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ ہمیں قرض سے بچنا چاہئے اور اپنی معیشت کو سود سے پاک بنانے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلا سودی مائیکرو فنانس اور سود سے پاک بینکنگ نظام کو فروغ دے۔ اس سے جہاں معیشت کو ترقی ملے گی، وہیں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سماجی عدم مساوات میں کمی آئے گی۔
جاری کردہ:
سلمان احمد
نیشنل اسسٹنٹ سکریٹری، شعبہ میڈیا، جماعت اسلامی ہند
موبائل: 7290010191
پتہ: ڈی 321، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی