شازیہ عندلیب
جب اللہ تبارک راستے کھولنے پہ آتا ہے تو سمندروں میں بھی سڑک بن جاتی ہے اور اگر کسی کو راستہ نہ دینا چاہے تو آسان راستوں پہ بھی چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔کون دشوارراستوں سے آسانی سے گزر جاتا ہے اور کون آسان راہوں پہ دشواری پاتا ہے اس بات کا انحصار انسان کی نیت اور ایمان کے درجے پر ہے۔
وطن عزیز کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ وہاں پر شریف برادارن حکومت تو کر سکتے ہیں مگر کسی شریف خاندان کا رہنا بہت مشکل ہے ۔ سحرش کی دوست سنبل سحر بھی اپنے ہی وطن میں حالات کی ستائی ہوئی تھی۔اس کے شوہر کے ساتھ کاروباری دشمنی اور پیشہ ورانہ مخالفتوں نے اسکے خاندان کا جینا دو بھر کر دیا تھا۔آئے دن اسے اور اس کے شوہر کو مخالفوں کی دھمکیوں اور مختلف طریقوں سے تنگ کرنے اور ٹارچر کرنے کے واقعات پیش آۤتے۔اس پر آشوب حالات میں اپنا پرایا کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔وہاں نہ ان کے خاندان کی عزت محفوظ تھی نہ مال۔ایسے مشکل اور کٹھن حالات میں انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ اپنے وطن کے ہوتے ہوئے اور اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی سرو سامانی کی حالت میں ایک چھوٹے سے مغربی ملک ڈنمارک کی جانب ہجرت کر گئے۔یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔راستے کٹھن تھے مگر وہ کشتیاں جلا کر آئے تھے واپسی کے راستے بند تھے۔اب انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ یہیں رہنا تھا یا آگے نکل جانا تھا۔وہ اپنی عزت بچانے کے لیے اپنا وطن اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے تھے۔وہی وطن جو ستر برس پہلے ہمارے بزرگوں نے انی قربانیوں کے بعد لیا تھا۔ۤآج اسی وطن میں اسکے اپنے شہریوں کا جان و مال محفوظ نہ تھا۔ مگر اللہ تبارک پر بھروسے کے ساتھ اس نے جو قدم اٹھایا تھا۔ اس نے اس بھروسے کا بھرم رکھا اور چند دشوار برسوں کے بعد اسے اس ملک میں رہنے کی اجازت مل گئی جو اسکا اپنا تو نہ تھا مگر وہاں لا قانونیت اور وڈیروں کی نہیں بلکہ قانون کی حکومت تھی۔جس نے ایک خوشحال اور مساوات سے بھر پور معاشرہ تشکیل دیا
بحری جہاز آۤہستہ روی کے ساتھ اپنا سفر طے کر رہا تھااور مہ جبین اپنی دوست کے بارے میں سوچ رہی تھی جس نے بہت مشکلات جھیلنے کے بعد ایک نئے ملک میں بہت محنت سے اپنا مقام بنایا جیسے سمندر کو چیر کر سڑک بنائی جائے یا راستہ یا پل تعمیر کر دیا جائے۔
کلر لائن کا خوبصورت بحری جہاز بڑی شان سے سمندر کے پانی کو چیرتا ہوا اپنے پیچھے ایک پانی کی سڑک بناتا دھیرے دھیرے رواں دوان تھا۔ سحرش بحری جہاز کی گول بالکنی سے سمندری سڑک کا خوبصورت نظارہ کر ہی رہی تھی کہ اچانک زہن کے پردہ سیمیں پہ اس سے بھی ذیادہ خوبصورت منظر ابھرا۔
دل نے کہا کیا دلکش منظر ہو گا ۔۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔۔۔جب سمندر نے موسیٰ کو راستہ دے دیا۔ اللہ سبحان نے اپنے لا ڈلے پیغمبر کو کتنے پیار سے حکم دیا کہ
اے موسیٰ سمندر میں عصیٰ مارو اور اس عظیم پیغمبر نے کتنے اؑعتبار سے عصیٰ سمندر کے گہرے پانی میں مار دیااور سمندر نے راستہ دے دیا۔
اسی راستہ پہ جب فرعون اپنی فوج کے ساتھ چلا تو سمندر پھر سے جڑ گیا ظالم فرعون اور اسکی فوج اسی راستہ پہ چل کر غرق ہو گئی جس راستہ پہ چل کر موسیٰ اور اس کے ساتھی پار اتر گئے۔
یہی ہے گمان اور یقین کا فرق حق اور باطل کا فاصلہ، سچ اور جھوٹ کا فرق، نیک نیتی اور بد نیتی کا فرق۔
ہمارے ۤآج کے حکمران،ان کے ساتھی اور بے ایمان عوام بھی اسی گمان میں ہیں کہ وہ لوگوں کا حق مار کے بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ جھوٹ بے ایمانی دھوکہ اور فریب کر کے بھی جیت جائیں گے انکے بیڑے پار اتر جائیں گے۔اس لیے کہ ان کے پاس وسائل ہیں۔ دولت ہے۔غیروں کے جھوٹے وعدے ہیں۔ پر فریب سہارے ہیں۔
بیشک عقل والوں کے لی ان واقعات میں قدرت کے اشارے ہیں۔ فرعون کی فوج جیسے لوگ ہیں تو وہ بھول جائیں کہ ان کا ظلم ان پر ہی واپس لوٹ کر ضرور آئے گا جب ان کے گمان میں بھی نہ ہو گا۔
اور وہ جو حق اور سچ پہ ہے ، وہ جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بے بسی کے عالم میں بھی حق پہ ڈٹا ہوا ہے، اس یقین کامل کے ساتھ کہ جس رب نے موسیٰ کو سمندر میں راستہ دے کر پار اتار دیا تھا ۔ وہی رب اس قیدی کو بھی راہ حق پہ چلنے کے لیے مصیبتو ں کے سمندر کے پار اتار دے گا۔
یہی یقین کامل ہر مصیبت زدہ انسان کو منزل تک کا راستہ ضرور دیتا ہے اور اسے بھی ضرور یہ یقین منزل پہ لے جائے گا۔ کیونکہ سچ اور حق کی اپنی طاقت ہوتی ہے اور جھوٹ اور فریب کی کی اپنی لعنت ہوتی ہے جو ایک نہ ایک دن انسان کو ضرور لے ڈوبتی ہے۔جبکہ سچ اور یقین کی طاقت انسان کو ضرور ساحل اور منزل تک پہنچا دیتی ہے۔
بس ضرورت ہے اک یقین کامل اور مضبوط ایمان کی پھر دیکھیں رب کیا کیا کرشمے دکھاتا ہے اور اور کیسے راستے بناتا ہے۔