کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل
دسمبر کے آخری ہفتے کی ایک سرد اور برفانی رات اور ناروے کی یخ بستہ ہواؤں میں ایک عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا۔ باہر کی دنیا میں عجیب سی اداسی تھی، مگر اندر دل میں کچھ مختلف ہونے کا احساس بدستور موجود تھا۔
میں تقریباً سونے ہی والی تھی کہ موبائیل پر رضوانہ کا صوتی پیغام آیا: “کیا آپ کل شام سات بجے اوسلو ایس آ سکتی ہیں؟” ان کی آواز میں ایک خاص جوش اور محبت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ رباب چوہدری آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔
رباب چوہدری کا نام میرے لیے نیا نہیں تھا، مگر رضوانہ کے لہجے نے دل میں تجسس پیدا کر دیا۔ برفانی موسم اور کرسمس کی چھٹیوں کے باعث ٹرینوں کے غیر یقینی شیڈول کے پیش نظر میں نے وقت کے بارے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ لیکن رضوانہ نے رباب صاحبہ سے بات کرکے وقت تبدیل کر دیا۔ اگلی صبح رضوانہ کا نیا پیغام میرے ان باکس میں جگمگا رہا تھا۔
انہوں نے شام سات بجے کی بجائے شام پانچ بجے کا وقت کر دیا تو انکار کی گنجائش باقی نہ رہی اور میں نے ملنے کی یقین دہانی کروا دی۔
ساڑھے تین بجے کی ٹرین لی اور اوسلو ایس پہنچی۔ تھرڈ فلور پر ایک کافی شاپ میں تین خواتین میرا انتظار کر رہی تھیں۔ رضوانہ نے دور سے ہاتھ ہلایا۔ ان کے ساتھ زہرہ اور وہی رباب چوہدری موجود تھیں۔ ملاقات کا لمحہ بےحد خوشگوار اور اپنائیت بھرا تھا۔
رباب چوہدری—ایک دلکش شخصیت، جن کے گرے بالوں اور چمکتی آنکھوں میں کئی داستانیں جھلک رہی تھیں۔جب وہ گفتگو شروع کرتی تھیں، تو ایسا لگتا کہ دنیا کے ہر موضوع کو اپنی باتوں سے زندگی بخش رہی ہیں۔ پاکستانی خواتین کے مسائل پر ان کی گفتگو دل کو چھو گئی۔ وہ معاشرتی، معاشی، سیاسی، ازدواجی،عائلی، نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں پر کھل کر بات کر رہی تھیں۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ خواتین کو ایک دوسرے کے علم، تجربے اور تعاون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خودمختاری حاصل کرنا ہوگی۔
رباب نے بتایا کہ مقدس، جو ان کی دوست ہیں اور مجھے سوشل میڈیا سے جانتی ہیں ، نے انہیں میرے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر عبد السلام کے نوبیل انعام پر ہونے والی بحث کے دوران ان کے حق میں بہت زبردست کام کیا تھا۔یہ سن کر مجھے بڑی خوشگور حیرت ہوئی اور میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں نے ڈاکٹر سلام پر چھ ولاگز کی ایک سیریز اپنے YouTube چینل Shellz Diary پر کی تھی۔ یہ سن کر رباب بےحد خوش ہوئیں اور بتایا کہ وہ ڈاکٹر سلام کی ایک کولیگ کے ساتھ بگ بینگ پراجیکٹ پر کام کر چکی ہیں۔ یہ میرے لیے حیرت اور مسرت کا جھٹکا تھا۔ طبیعات ہماری مشترکہ محبت قرار پائی۔
گرما گرم کافی کے ساتھ رباب کے ہاتھ کے بنے کیک اور کافی شاپ کے لذیذ چیز کیک نے اس ملاقات کو مزید یادگار بنا دیا۔ گفتگو میں وقت کا احساس تک نہ ہوا اور شام کے سات بج گئے۔ رضوانہ نے دوسری ملاقات کے لیے روانہ ہونے کا عندیہ دیا۔
اگلی منزل اوسلو کے ایک پر رونق علاقے میں واقع ایک شامی ریستوران تھی، جہاں اسلم چوہدری سے ملاقات ہوئی۔ اسلم صاحب نے نہایت خلوص اور کھلے دل سے رباب کو اپنے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ رباب نے اپنے آئندہ منصوبوں کے لیے ان سے قیمتی معلومات اور کنٹیکٹس حاصل کیے۔ کھانے میں بینگن کا خاص بھرتہ، ہمس، بار بی کیو، قیمے والے گول گول انڈے جیسے کوفتہ نما بالز، چاول، سلاد، باریک خاص طرح کی روٹی اور شامی قہوہ کے ذائقے نے ہمیں ایک نیا تجربہ دیا۔ یہ کھانا صرف مزیدار نہ تھا بلکہ تعلقات اور خوابوں کے مضبوط ہونے کا مظہر بھی تھا۔
رات گہری ہو چکی تھی لیکن باتیں تھیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھیں۔ بلآخر میں نے روانگی کی درخواست کی۔ مجھے ٹرین لینی تھی اور چھٹیوں کی وجہ سے سارے شیڈول گڈ مڈ تھے۔
واپسی پر اوسلو ایس پر پہنچے تو میری ٹرین کی روانگی میں پونا گھنٹہ باقی تھا۔ رضوانہ جا چکی تھیں ، رباب نے گاڑی پر جانا تھا لیکن انہوں نے مجھے اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ رات کے دس بج چکے تھے اور کافی شاپ بند ہو چکی تھی۔ تمام ریستورانوں اور کیفیٹیریا کے ملازمین آخری صفائیاں کر رہے تھے۔
وہیں پر ہمیں ایک دوکان کے سامنے دو آرام دہ کرسیاں دکھائی دیں اور ہم ان پر براجمان ہو گئیں ۔ باتیں تھیں کہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہی تھیں۔ اپنے ہم وطنوں خاص طور پر خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے بیسیوں منصوبے اور مختلف پراجیکٹس۔رباب کی حوصلہ افزا باتوں سے میرے دل میں ایک عجیب سی گرم جوشی محسوس ہو رہی تھی۔ رباب میرے ساتھ پلیٹ فارم نمبر گیارہ تک آئیں اور جب تک میں ٹرین پر سوار نہیں ہوگئی وہ پلیٹ فارم پر کھڑی ہاتھ ہلاتی رہیں ۔وہ اپنے عزم سے میری آنکھوں میں امید اور الفاظ میں حوصلہ چھوڑ گئیں۔ ان کی باتیں، ان کے خواب، اور ان کے مستقبل کے منصوبوں نے میرے دل میں ایک نئی اور مثبت توانائی پیدا کر دی ہے۔
وہ الوداعی لمحہ میرے لیے کسی یادگار تحفے سے کم نہ تھا۔ رات ساڑھے گیارہ بجے گھر پہنچی تو گھر والے میرے دیر سے آنے پر فکر مند تھے، مگر میرا دل ایک کامیاب ملاقات کےبعد بے حدمطمئن تھا۔ مجھے بخیریت اور پر سکون دیکھ کر سب لوگ خوش ہو گئے۔
یہ شام، یہ ملاقات اور یہ خواب میرے لیے ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔یہ محض ایک ملاقات نہیں تھی بلکہ ایک تحریک کی ابتدا ہے جو خواتین کی خودمختاری، بچوں کی تعلیم، اور معاشرتی بھلائی کے لیے امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو منصوبے اس ملاقات میں تشکیل پائے ہیں، وہ کل حقیقت بن کر دنیا میں بہتری لانے کا سبب بنیں گے۔ یہ صرف ایک شام نہیں تھی، بلکہ خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی طرف پہلا قدم ہے۔
یہ دن، یہ باتیں، یہ خواب اور رباب چوہدری کا جذبہ—سب کچھ ایک خوبصورت داستان کا حصہ بن چکا ہے۔ایک ایسی داستان، جس کے اگلے باب میں انسانیت کی خدمت، عورتوں کی خودمختاری، اور بچوں کے بہتر مستقبل کے سنہرےخواب ہیں۔