زبیر حسن شیخ
شیفتہ فرما رہے تھے …. رات بقراط کا برقی پیام آیا تھا کہ ….”نکل چلئے… وقت اچھا ہے”… جسے پڑھکر ہم رات بھر پریشان رہے.. پتہ نہیں کہاں سے نکلنے کو کہہ رہا ہے .ادب سے، ملک سے یا احساسات و افکارت کی دنیا سے…. یا دنیا سے نکل جانے کا تقاضہ کر رہا ہے ..کسی سے کچھ کہنے پوچھنے کے لائق بھی نہیں چھوڑا کمبخت نے…. اس پر طر ا یہ کہ تہواروں کو بھی اب سیاسی اور تجارتی رنگ دے دیا گیا ہے….سیاسی اور اخلاقی آلودگی کچھ کم نہ تھی کہ اب لوگوں نے ماحول میں بھی آلودگی پیدا کردی …خود بھی پریشاں ہوئے ، ہم کو بھی پریشا ں کیا..دیوالی پٹاخوں کا شور و غل ختم ہوا تو اب سیاسی پٹاخوں کا جاری ہوا… کیا قصبہ اور کیا شہر سارا بر صغیر سیاسی پٹاخوں اور پٹاخاں میں گھرا ہوا ہے…نچلے درجے کے سیاسی رہنما پھلجڑی چھوڑ رہے ہیں تو اعلی درجے کے رہنما سیاسی بم پھوڑ رہے ہیں … مجال ہے انہیں میڈیا سیاسی دہشت گرد قرار دے ..دہشت گرد کے لئے داڑھی اور ٹوپی کو ہونا لازم ٹہرا یا گیا ہے …اور اس تراش خراش میں اگر کوئی ڈوبتے کتے کو بھی بچا نے کی کوشش کرے تو میڈیا اسے تحفظ حقوق حیواں کے تحت دہشت گرد قرار دیتا ہے..سیاسی پٹاخہ بازوں میں میڈیا پیش پیش ہے … ایکدوسرے کے سیاسی گھوڑوں کی پونچھ سے پٹاخے باندھ کر مزا لیتے ہیں….ادھر ہو یا ادھر دونوں جگہ سیاسی آگ برابرلگی ہے…رائے دہندگان اپنی زخمی انگلیاں سینک رہے ہیں اور میڈیا اپنی روٹیاں….. اب اس طرفہ تماشہ میں کیا نکلنا اور کہاں نکلنا…..اگر کہیں نکل بھی گئے تو بقول زندہ دلان حیدرآباد ‘نکلے ہوئے’ کہلائیں گے… اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ کمبخت نے صبح صبح پھر یہ لکھ بھیجا کہ…ابھی رکئے ذرا….سیاسی بارات ہے… گزر ہی جائیگی “…. سوچا ، پتہ نہیں کس ٹرافک میں پریشان کھڑا ہے… کمبخت کتابی جنگو…گفتار کاغازی…آخر ٹہراایک برصغیری مسلمان….. تہذیب جدیدہ نے اس کی زندگی پیدل کر رکھی ہے…بے چارہ نہ دین کا رہ پاتا ہے نہ دنیا کا…. ہر ایک چلتی ریل میں چڑھ جاتا ہے… نہ منزل دیکھتا ہے نہ رفاقت…..پتہ نہیں کس کس کو خوش کرنا چاہتا ہے ….جسے خوش کرنا ہے اسے ناراض کر بیٹھا ہے .. جو مسرتوں کے خود محتاج ہیں ان سے مسرتوں کی توقع باندھ رکھا ہے ….. سیاسی نقار خانوں میں آوازوں سے آوزیں ملاتا ہے ….طوطی کی آواز نقار خانہ میں! …بھلا سنتا کون ہے …سمجھتا کہاں ہے یہ … کبھی بنجربنا دی گئی جمہوریت کی زمین میں ہل چلاتا ہے… جس میں نا انصافی ، مادیت پرستی اور بے ضمیری کے بیج بوئے گئے ہیں…. جو اب نفرت، بدعنوانی ، دھوکہ دہی اور خود غرضی کے ببول اگا تی ہے … تعصب کی حد تک محب وطن بن گیا ہے … اور تعصب بھی کس سے …خود اپنے ضمیر سے …کسقدر نا شکرا ہے کہ ایرے غیرے کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا ….کس کس کی کیسی کیسی توصیف و تعریف میں الجھا ہے ..ہم نے کہا حضور آپ بقراط سے پوچھ لیتے کہ اس کا مدعا کیا ہے… فرمایا .. اماں ، مدعا اس کا بھی مرزا کی طرح عنقا ہے…. پوچھو ایک تو بولے ایک… اور جس میں دس دس معنی….گنجینہ معنی کی سعادت سے اب ہر کوئی سرفراز تو نہیں ہوسکتا نا.. بر صغیر کے سیاسی رہنماں نے غالب کو کما حقہ پڑھا کہاں ہے.. گر کچھ پڑھا تو پھر سمجھا کہاں ہے … جو منہ میں آئے وہ بول دیتے ہیں اور جو منہ کو آئے لگا بھی لیتے ہیں …پھر چاہے میڈیا کا مائیک ہی کیوں نہ ہو …چاہے لندن میں بیٹھے بیٹھے بولیں یا امریکہ جا کر بولیں ، یا مقامی سیاسی جلسہ میں بولیں …. ہاں ہمیں بقراط کے دوسرے پیام سے یہ پتا تو چل گیا ہے کہ کمبخت کسی بارات کا ذکر کررہا ہے… ہمارا خیال بر صغیر کے خاندان جمہوریہ کی طرف چلا گیا… سوچا دیکھیں ان میں شادی کے لائق کنوارے کون کون ہیں….بنگلہ دیش کے خاندان جمہوریہ میں تو اولاد نرینہ کا کال پڑا ہے…. بلکہ انکی لٹی پٹی سیاست میں اب مرد حق کوئی رہا کہاں ….ملکہ سبا کی حکومت ہے اور کارندے سب چاپلوس … اس ملک کو کسی سلیمان کا انتظار ہے ….سنا ہے بنگال کے اطراف میں اب ہد ہد بھی نظر آنے لگا ہے. ..ان میں کوئی اہل علم بھی ضرور ہوگا ، جو پلک جھپکتے ملکہ سبا کا تخت لے اڑے گا …الغرض سیاسی کنواروں میں بلاول اور راہل کا ہی نام یاد آیا….سیاسی رشتہ ازدواج کی انکی عمر ہی نہ تھی….نئی نسل کا کیا ہے …قبل از شادی تعلقات قائم کر لیتے ہیں …اب دونوں ‘ ولی عہد جمہوریہ’ سیاسی بن باس سے گزر رہے ہیں… بر صغیر کے دیگر سیاسی رہنماں کا حال ان سے بھی برا ہے.. کیسے کیسے سیاسی لیڈر بر صغیر نے پیدا کیے ہیں…مرغی اور انڈا سب چٹ کرجاتے ہیں..چاہے سونے کا انڈا دینے والی ہی کیوں نہ ہو ..ان کے لئے نہ مرغیوں کی کمی ہے نہ انڈوں کی….اس پر طرا اہل ایمان کی کوتاہیاں … نہ جانے کیا کیا اور کتنا کچھ بول دیتے ہیں ..کتنا کچھ رد و بدل کردیتے ہیں …..جبکہ اتنا ہی کافی تھا کہ سب مل کر کچھ یوں ہی کہہ دیتے……نہیں ہے کوئی ماننے کے لائق سوائے اس ایک اللہ کے جس کے محمد صلی علیہ و صلعم رسول ہیں…سو دیڑھ سو کروڑ اگر اتنا ہی کہہ دیں تو جن و انس و اصنام سب قل ھواللہ احد پڑھکر منہ کے بل گرجائیں…پھر بقول برقی “برقی دلوں سے بغض و عداوت تمام شد” …ابھی شیفتہ عقدے حل کرنے میں کوشاں تھے کہ بقراط بھی آپہنچے….
شیفتہ نے بقراط کو دیکھ کر فورا کہا.. کس راجہ کی بارات میں چلے گئے تھے آپ ….. کہا، حضور بی جے پی کے راجہ کی بارات نکل چکی ہے…بڑی لمبی ہے..جمہوریت دلہن بنی ہے اور جسکے سولہ سنگھار کو دیکھ کر بیچاری دروپدی کی کہانی یاد آتی ہے…باراتیوں میں اب کیا اپنے اور کیا پرائے سب شامل ہوگئے ہیں….تمام تر ساز و سامان کے ساتھ نکلی ہے بارات..جاپان، چین، امریکہ ہوتے ہوئے اب ہندوستان لوٹی ہے..اور ممبئی مہاراشٹرا میں خوب دھوم مچا رکھی ہے….اسکے گزرنے میں کافی وقت لگے گا….وہی ساز، وہی سازندے، وہی بگھیاں، وہی گیت .. سب کچھ وہی ہے جو کانگریس کی بارات میں نظر آتا تھا…. بھجن اور قوالی کے علاوہ مخلتف راگ بھی الاپا جارہا ہے… راگ بھیروی و ملہار تو ہے ہی لیکن چند ایک نئے راگ بھی الاپے جارہے ہیں… کچھ راگوں کو زیر و زبر کر پیش کر دیا گیا ہے….سرتال بھی بدلے ہوئے ہیں…دولہے والوں کے بھی اور باراتیوں کے بھی …اور دلہن والوں کے بھی…’راگ مسلمانی’ ایک نیا راگ ہے جسے اول سرزمین ہند کے باہرالاپا گیا ہے.. یہ کہہ کر کہ’ ہندوستانی مسلمان آتنک وادی نہیں ہوسکتا’…. اچھا راگ ہے…سرتال سے میل کھاتا ہے…دیپک راگ کی طرح اس میں آگ نہیں ہے… راگ یمن کی طرح سانسیں اکھڑ نہیں جاتی…اسکے بول بھی کچھ نئے ہیں…راگی کوئی پنڈت ہی ہوگا…. گھرانہ بھی پاس پڑوس کا ہوگا…. مشہور و معروف طبلہ نواز سنگت دے رہے ہونگے …جن میں چند مسلمان گھرانوں سے ہونگے…. ان سب سازندوں کا ہندوستان کی ”سبھیتا” کو پروان چڑھانے میں اہم کردار رہا ہے…..جبکہ ایک اہل کردار مسلمان وہ بھی تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں انگریزوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی ، اور جس کی گونج آج بھی برصغیر کے سیاسی ایوانوں میں گونجتی ہے….لیکن دولہے اور دلہن والوں کو یہ سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی انکے باراتیوں کو ….یہ وہی باراتی ہیں جنہوں نے پچھلی دو دہائی میں دلہن کا چیر ہرن کیا تھا، مہارشٹرا اور گجرات میں مسلمانوں کے خون سے دلہن کو ”شردھانجلی ارپن” کی تھی….تب بھی مسلمان آتنک وادی نہیں تھا… باراتیوں کو ضرور یاد ہوگا…. باراتیوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی مسلمان ہے جس نے اپنے خون کی” آہوتی” دے کر سب کو غلامی سے نجات دلائی تھی … غلامی انگریز کی ہو یا کسی اور کی، جسمانی ہو یا ذہنی ، مسلمانوں کو زیادہ دن تک راس نہیں آتی…. انہیں زیادہ دن تک ظلم بھی راس نہیں آتا ..صحیح کہا ہے… یہ آتنک وادی نہیں ہوسکتے، لیکن یہ زیادہ دن تک مظلوم بھی نہیں رہتے …فرمایا ..انکے باراتیوں میں چند مسلمان بھی شامل ہیں… کانگریس کی سیاسی شادیوں میں بھی ہوا کرتے تھے …لیکن وہ سب اب لٹ چکے ہیں …اور قوم و ملت کا سرمایہ بھی لٹا بیٹھے ہیں …..مسلمان باراتیوں کا کیا ہے… یہ وہ لوگ ہیں جو بیگانی شادی میں دیوانے ہوجاتے ہیں…ایسے ہی جیسے افغانی شادی میں او باما دیوانہ ہوئے تھے… دولہے راجہ کو وہ شادی ضرور یاد ہوگی… اوباما کو بھی دولہے راجہ کا نیا راگ بہت پسند آیا ہوگا…. یہ راگ انہوں نے بھی کبھی الاپا تھا.. گرچہ گیت کے بول انگریزی میں تھے…. شیفتہ نے پوچھا اماں اور کون کون سے نئے راگ الاپے گئے ہیں….کہا، حضور ایک تو راگ کالا دھن…..دوسرا کرپشن…یہ دونوں راگ اکثر ہندوستانی سرکاری ملازمین ، سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کے رگ رگ میں دوڑتا ہے ..یہ وہ راگ ہے جسے یہ پوجا سمجھ کر الاپتے ہیں … کالا دھن کا راگ سن کر دلہن تو خوش ہوگئی لیکن باراتی حواس باختہ ہوگئے…. حریف ہو یا حلیف سارے سازندوں کے تار ڈھیلے ہوگئے… فرمایا… سب کے تار ایکدوسرے سے ملے ہوئے ہیں…. یہ راگ سب ایکساتھ مل کر الاپ رہے ہیں.. کالا دھن جمع کرنے والوں میں کیا سیاسی اور کیا تجارتی، کیا صنعتی او رکیا مذہبی سارے گھرانے شامل ہیں… ہندوستان میں انہیں ‘دھرتی ماتا کے سپوت’ ہونے کا شرف حاصل ہے …. یہ خود بھی اپنے آپ کو جمہوریت کا وفادار اور بھارت کو بھاگیہ ودھاتا کہتے ہیں …اور وند ماترم کا نعرہ بلند کر اپنی دھرتی ماتا کے سینے میں غداری کا بر چھا مارتے ہیں … پھر بھی خود کو دھرتی کے پجا ری اور بھومی پتر کہتے ہیں ….ملکی قوانین اور سرکاری ادارے انکے محافظ ہیں .. ملک کے ان غداروں میں کوئی ایک بھی مسلمان نہیں نکلا….متعصب میڈیا چاہ کے بھی نکال نہ سکا…. اور…”قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا “….غریب عوام کا کیا ہے ان کی سمجھ میں کہاں کچھ آتا ہے … ان کے سر مہنگائی کی مسلسل چپت لگا کر انہیں کچھ سمجھنے کے قابل ہی کہاں رکھا جاتا ہے ..فرمایا، پاکستان میں تو سیاسی بارات ہی نہیں نکلتی … سیاسی لیڈر وہاں صرف قوالی پر اکتفا کر تے ہیں… وہی مکرر اشعار، مکرر الفاظ، بلکہ اشعار و الفاظ کی مسلسل تکرار جو قوالی کا خاصہ ہے.. بس منہ بدل جاتے ہیں الفاظ وہی رہتے ہیں … وہاں لمبی بارات کہاں سے نکلے گی.. دلہن کسی کو لاکھ پسند آتی ہو لیکن اکثر باراتیوں کو نہیں آتی…انہیں احساس ہے کہ یہ وہ دلہن ثابت نہ ہوسکی جسے دین کے پردے میں لپیٹ کر لایا گیا تھا …. اسکے رنگ ڈھنگ نرالے نکلے….اور اب تو اصل کہار بھی نہیں رہے..اب تو گورکن اور کفن چور کہار بن بیٹھے ہیں…عوام یہاں کی ہو یا وہاں کی ..سمجھتی کہاں ہے…. بیچاری ایک ووٹ کے عوض میں کتنی مرادیں مانگتی ہے اور کتنے سمجھوتے کرنا چاہتی ہے…. آسائیش پسند نسل اب سب کچھ ہتھیلی پر رکھا ہوا چاہتی ہے… کسی کو نئی سرکار صرف اس لئے چاہیے کہ اسکا ایک گھر ہو جائے… پھر چاہے وہ ادھار کا ہی کیوں نہ ہوں…. اب اوسط پچیس ہزارماہانہ کی نوکری ٹہری …. اور چالیس ہزار ماہانہ کی بینک ادائیگی !!.. گھر کہاں سے آئیگا …اور اچھے دن کہاں سے آئینگے ..امریکہ میں کب آئے تھے… اوراگر آئے تھے تو کتنے دن رہے …..یہودی مہاجنوں نے عوام کو ادھار کے عیش کا عادی بنا دیا تھا … قرض کی زندگی اور مقروض کی موت ..پھر وہی ہوا جس کا انہوں نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا … سارا ملک ہی مقروض ہوگیا.. اب مرنے سے بچ رہا ہے… لیکن کب تک….معاشی موت تو ویسے بھی ذرا دیر سے آتی ہے …. لیکن اخلاقی موت تو یہاں گرے اور وہاں آئی …اب یہودی مہاجنوں اور مغربی سرکاروں کے ہاتھوں کاغذ ی دولت اور گروی شدہ املاک کا ملبہ جمع ہوچکا ہے…..یہ تو عموما مغرب کا حال ہوا … لیکن یہاں مشرق میں اب بھی غریب روزانہ کی دال روٹی کو لے کر پریشان ہے ، گر چہ ٠٠٢ روپے کی سنیما کی ٹکٹ خرید کر ناچنے گانے والوں کو امیر اور جمہوریت کے ایک ووٹ سے سیاست دانوں کو امیر ترین بنا دیتا ہے … کوئی زندگی کے تمام عیش چاہتا ہے ، اور فورا سے پیشتر چاہتا ہے . …کوئی نوجوان مستقبل کے خواب سجا ئے آہ کر بیٹھا ہے …. اسے کیا پتا کہ ..آہ کو چاہیے اک عمر، اثر ہونے تک… بلکہ جمہوریت میں تو عمر دراز مانگ کر لاتے ہیں … جو آرزو اور انتظار میں ہی کٹ جاتے ہیں….الغرض ہر کوئی جمہوریت میں وہ سب کچھ چاہتا ہے جسے جمہوریت دے نہیں سکتی ….. جمہوریت بیچاری خود کہیں دروپدی کی علامت بنا دی گئی ہے تو کہیں مائی مختاراں کی تو کہیں ملالہ کی ، اورکہیں لیڈی لبرٹی کی ….فطری زندگی سے کوسوں دور مصنوعی زندگی ….آزاد زندگی.. .کربناک زندگی ……. کالے دھن کا راگ سنکر عوام بھی خوش ہوگئی … اسے سہانے خواب دکھا ئے جو گئے ہیں …. بے چاری ہر ایک سیاسی چال میں یہی تلاش کرتی رہتی ہے کہ ابھی تیل گھی، سبزی کے دام کم ہوجائیں گے… تعلیم اور علاج معالجہ سستا ہو جائیگا …. سامان عیش و عشرت اب کوڑیوں کے دام ملنے لگیں گے….. انہیں خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ صرف موت کا سامان کوڑیوں کے دام ملتا ہے..مختلف امراض کی صورت میں …. مختلف ماحولیاتی آلودگی کے سبب…..تابکاری کے مضر اثرات کے تحت ….بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ موت اب تکلیف دہ نہیں رہی … بلکہ عام انسان کے لئے کچھ مہذب اور خاص انسان کے لئے مہذب تر ہوتی جا رہی ہے.. فرمایا ، ہمیں تو اب ہول اٹھ رہا ہے…خدا نہ خواستہ کہیں تاریخ اس بار بھی خود کو دہرائے گی کیا… کہا، حضور.. تاریخ تو مسلسل اپنے آپ کو دہرا رہی ہے… بس آپ لوگوں کو نظر نہیں آتا….فرمایا… چشم بد دور جب سے آپکے نظریہ کا نقطہ بدلا ہے آپ کو سب صاف صاف نظر آرہا ہے….کہا.. ہاں حضور…اس بار ہم نے چینی عدسے جو خریدے ہیں… یوروپی عدسے جلد دھندلا جاتے ہیں…امریکی عدسوں کا کیا کہنا….انہیں لگا کر نظر ہو یا نظریہ ، مجال ہے کچھ باقی رہے…. بلکہ بینائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی..سب کچھ وہی نظر آتا ہے جو عدسے دکھلاتے ہیں…. بر صغیر میں اکثر نے یہی عدسے لگا رکھے ہیں….فرمایا.. ذرا دیکھ آتے ہیں بارات میں کیا کچھ ہورہا ہے….اب تو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ راجہ کی بارات بڑی لمبی ہے….وقت لگے گا اسے گزرنے…دلہن ہو یا باراتی سب خوشی خوشی گزررہے ہیں…اور گزار رہے ہیں ..زندگی ہو یا وقت … سب گزرنے والی چیزیں ہیں … ..میڈیا بھی دلہن کی ڈولی کے ساتھ لگا ہوا ہے…..چوتھا کہار جو ٹہرا….کبھی کبھی تو تنہا ہی جمہوریت کی ڈولی اٹھا لیتا ہے …چلیے اگر بارات گزربھی گئی ہو تو اچھا ہے….. بلکہ بہت اچھا ہے … بارات کے گزرنے کے بعد کا عالم خوب ہوتا ہے … بارات کے چال چلن اور رکھ رکھا کا پتا اسکے گزر جانے کے بعد ہی چلتا ہے….