صنعتی ترقی میں زراعت کا کردار

انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جن بنیادی اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ان میں خوراک ، لباس اور رہائش شامل ہیں۔چونکہ ان اجزا کا تعلق براہِ راست زراعت سے ہے اس لیے کسی بھی ملک کے لیے زراعت کلیدی اہمیت کا حامل شعبہ ہے۔ زراعت کا شعبہ نہ صرف عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور صنعت وملکی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زرعی ترقی کے بغیر ملک میں صنعتی ترقی ممکن نہیں کیونکہ صنعتوں کے لئے خام مال یہی شعبہ فراہم کرتا ہے۔ جس قدرعمدہ اور زیادہ خام مال فراہم ہوتا رہتا ہے اسی قدر صنعتی پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر زرعی پیداوار میں کمی کے باعث خام مال صنعتی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو صنعتیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
حال ہی میں وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اپٹما کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بجٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو مراعات دیگی۔اس مقصد کیلئے زیرو ریٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے ٹیکسٹائل سیکٹر پر سیلز ٹیکس کی شرح زیرو ہوجائیگی۔صنعتی شعبہ میں ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات بلاشبہ خوش آئند ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ زرعی شعبہ کی ترقی کے بغیر صنعتی ترقی کے خواب دیکھنا محض ہماری خام خیالی ہے۔اگر ہم زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان قدرتی طور پر زرعی ملک ہے جسے زبردستی صنعتی ملک بنانے کے لیے اس کی زراعت کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔دراصل پاکستان میں موجود تمام صنعتوں پر ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں اور کاروباری حضرات کی اجارہ داری ہے اس لیے قانون بناتے وقت ان کی ترجیحات زراعت کے بجائے ذاتی کاروبار ہوتاہے۔ہمارے حکمرانوں نے قومی معیشت کی بنیاد یعنی زرعی شعبے کو بری طرح نظر انداز کر رکھا ہے حالانکہ کسانوں کو سہولیات فراہم کر کے قومی معیشت اور زرعی پیداوار سے متعلق صنعتوں کو زبردست فروغ دیا جا سکتا ہے۔زرعی شعبہ کی ترقی سے جہاں دیہاتوں میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا وہیں ٹیکسٹائل ، شوگر، آئل ، رائس شیلرز،فلور ملز اور لیدر جیسی صنعتوں کا پہیہ سارا سال رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔زراعت اور صنعت کے مربوط انقلاب سے پاکستان بیشتر اشیا ء میں خود کفیل ہوجائے گا جس سے در آمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا اور خطیر زرِ مبادلہ پاکستان میں منتقل ہوگا۔
کسانوں کی کسمپرسی ملاحظہ کیجیے کہ چینی کی کم قیمتوں کی وجہ سے گنے کے کاشتکاروں کو اپنی فصل شوگر انڈسٹری کے صنعت کاروں کے رحم وکرم پر چھوڑنی پڑتی ہے۔کسانوں کو گنے کی مناسب قیمت نہیں دی جاتی بلکہ معمولی قیمت کی ادائیگی کے لیے بھی مہینوں تک محروم رکھا جاتا ہے۔شوگر ملیں کروڑوں روپوں کی نادہندہ ہیں کیوں کہ بیشتر شوگر ملیں حکمرانوں اور سیاسی راہنماؤں کی ذاتی ملکیت ہیں۔کپاس کی فصل میں خسارہ معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری زوال کا شکار ہے۔اس سے بڑھ کر ہمارے لیے المیہ کیا ہوگا کہ کپاس کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود ہم نے پچھلے سال چار ارب ڈالر کی کپاس درآمد کی ہے۔گندم ہمارے اہم غذائی اجناس میں شامل ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں ٹن گندم سرکاری گوداموں میں پڑی تلف ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے فلور ملیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔گزشتہ سال گندم کا وافر سٹاک ہونے کے باوجودیو کرائن سے 7لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی جبکہ خیبرپختونخواہ میں آٹا روس سے اسمگل کیا گیا جو پہلے زیادہ تر پنجاب کی فلور ملیں کیا کرتی تھیں۔ان تمام خرابیوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری، شوگر انڈسٹری، فلور ملز کی بہتری کے لیے تو اقدامات کیے گئے لیکن انہیں خام مال مہیا کرنے والے کسانوں کے متعلق سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔صنعت کاروں کو ٹیکسز پر چھوٹ دی جاتی ہے، قرضے معاف کردیے جاتے جبکہ کسانوں کو صرف زبانی کلامی بہلایا جاتا ہے۔
معاشی زوال کی ایک اورمثال ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان کی مجموعی صنعتی ترقی میں چھوٹے پیمانے کی زرعی صنعتوں کا حصہ بہت ہی کم بنتا ہے کیوں کہ اس کی طرف کسی حکومت نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔اگر صرف اسی شعبے کی طرف بھرپور توجہ دی جائے تو جہاں دیہی علاقوں میں ترقی ہوگی وہیں روزگار کے وسیع مواقع بھی میسر آئیں گے جس سے روزگار کے حصول کے لیے دیہاتوں سے شہروں میں بڑھتی ہوئی منتقلی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو سب سے پہلے زرعی نظام میں اصلاحات اور کسان دوست پالیسیوں کو لاگو کرکے ہی وہ صنعت میں خود کفیل ہوئے۔اس ضمن میں امریکہ اور جنوبی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ زراعت کے بغیر نہ تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ مقررہ شرح نمو اور ترقی و خوشحالی کے پیرا میٹرز پر عملدر آمد کو یقینی بنا یا جاسکتا ہے۔ ڈیمز کی کمی اور بارشوں کے باعث گزشتہ تین سال سے پاکستان میں آنے والے سیلابوں نے ملکی معیشت پر جو اثر ڈالا ہے صرف گزشتہ سال کے اعداو شمار کے مطابق کسان کو پانچ لاکھ ستر ارب روپے اور ملک کو مجموعی طور پر ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس کا اثر براہ راست صنعتوں پر پڑا اور مطلوبہ مقدار میں خام مال دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے صنعتکاروں اور معیشت کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
حاصلِ کلام یہ کہ کسی ملک کی ترقی کے لیے صنعت اور زراعت لازم و ملزوم ہیں۔لیکن جس طرح صنعتی ترقی کی آڑ میں زراعت کو نظر انداز کیا جاتا ہے یہ ہمارے ملک کو پستی کی گہرائیوں میں دھکیل رہا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک میں زرعی شعبہ کو مختلف سبسڈیز فراہم کی جاتی ہیں۔ اس طرح زراعت کے شعبہ میں کام کرنے والے آجر کے ساتھ تعاون کر کے متوازن شکل میں زرعی پیداوار کی ضمانت حاصل کی جاتی ہے۔اگر ہم ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دے کر خود کفیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں زرعی اور صنعتی ترقی کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس میں زراعت کی بحالی و ترقی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اگر فصلوں کی پیداواری لاگت کم کر دی جائے اور کسان کو مناسب نرخ دے کر اسے معاشی طور پر خود کفیل کر دیا جائے تو ملک میں زرعی انقلاب برپا ہوسکتا ہے جس کا براہِ راست اثرصنعتی شعبہ پر پڑے گا ۔وافر مقدار میں خام مال میسر آنے پر صنعتیں سارا سال چلتی رہیں گی جس سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہوں گے۔
تحریر: سعد الرحمٰن ملک
0300-2850205
saadmalik205@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں