باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری
پاکستان ایک تھا اس وقت ہم دو لخت نہ تھے۔لیکن ہمارے ازلی دشمن کی جو بے ڈھنگی چال اس وقت ہے اس زمانے میں بھی تھی۔ماں نے اس ملک پر جانیں نچھاور کرنے والے بڑی بیٹے پیدا کئے وہ مائیں اب بھی جنم دے رہی ہیں ہاں اس وقت یہ تھا کوئی اپنی فوج پر سر عام بھونکتا نہیں تھا قوم اپنے بیٹوں کے ساتھ کھڑی تھی۔زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں لوگ الیکشن ہارتے ہیں اور پھر اس شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنے اس ادارے پر سگیانہ صوت بلند کرتے ہیں جو شائد کسی دشمن نے ہی لگائی ہو گی۔ میں کوئی ڈیڑھ ماہ سے حرمین میں ہوں عمرہ بھی ہو گیا زیارت مدینہ بھی ہوئی آے روز تقریبات ہو رہی ہیں میں نے اپنے آپ کو پاکستان کا سفیر سمجھا ہے عرب کمیونٹی سے رکھ رکھاؤ بڑھایا ہے یہاں کی بڑی کمپنیوں کے صدور سے ملاقاتیں کی ہیں پاکستانیوں سے مل رہا ہوں اسی دوران میری ایک بار پھر تعیناتی ہوئی ہے جناب سیف اللہ نیازی اور جناب احمد جواد نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں جاری رکھوں۔میرے لئے سبز پاسپورٹ کے حامل سارے ہی قابل احترام ہیں کل جب اویس کیانی جو میرے برخوردار کی جگہ ہے اس نے حاصل بزنجو سے سوال کیا کہ کہ آپ کی شکست کے اسباب کیا ہیں تو سن کر دکھ ہوا کہ جب غوث بخش بزنجو کے بیٹے نے آئی ایس آئی نے مجھے ہرایا ہے۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ خریدو فروخت ہوئی ہے جس کے منہ میں جو کچھ آ رہا ہے کہے جا رہا ہے وہ لوگ جو چھانگا مانگا سجایا کرتے تھے وہ بھی الزام لگا رہے ہیں۔دوستو موضوع سے ہٹ نہ جاؤں جمہوریت کے حسن کی بات کرتے تھکتے نہیں ہو جب اس کی قباحتیں سامنے آتی ہیں تو پھر چیختے کیوں ہو؟یہ مولانا سے پوچھئے یہ ان سے پوچھئے جو پاک فوج سے نون لیگ میں گئے ہیں۔غیرت بھی کوئی چیز ہے جہان تگ و دو میں اگر جاگی ہے تو پھر حیرت کیوں؟بہت سوچا کہ یاران وطن کے حالات بیان کروں جدہ کے رہنے والوں کے دکھڑے لکھوں یا سعی لاحاصل پر قلم اٹھاؤں لیکن سوچا سات اگست آ رہی ہے وطن کے سپوت کا یوم شہادت ہے وہ بھی کیا دور تھا حکومت کے پریس ریلیز سر آنکھوں پر رکھے جاتے تھے۔ورنہ اجمل قصاب کی طرح فاتح لکشمی پور کو گھس پیٹھیاء کہا جاتا اس کاروائی کو کارگل کی طرح بدنام کیا جاتا اور کہا جاتا کہ ہم لکشمی پور کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کرائیں گے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اس وقت کوئی ایسا نہ تھا جو کہتا کہ بھارتی اور پاکستانی ایک ہی تو ہیں ہم ایک ہی رب کو پوجتے ہیں اور کوئی سیفما نہیں تھی جو اس لکیر کے خاتمے کے لئے کوشاں رہتی۔
آزادی بڑی چیز ہے لیکن مادر پدر آزادی کے جو گندے اور منحوس کھیل اب کھیلے جا رہے ہیں انہیں روکناہو گا۔ہمارے جوان اب بھی شہید ہو رہے ہیں پچیس ہزار کی بکری نہیں ملتی اور ایک جوان وردی پہن کر کبھی سیاچین اور کبھی وانا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہا ہے شرم کریں وہ لوگ جو ہر چیز کے پیچھے وردی دیکھتے ہیں۔یہ امن یہ کراچی یہ سیلاب یہ طوفان ہمارے ساتھ کھڑے یہ فوجی ہمارے یہی بیٹے ہی تو ہیں جو اپنے تن پر وار سہہ کر ہمیں بچا رہے ہیں ان بیٹوں کی پیٹھ میں چھرا نہ گھونپیں۔ آئیں کیپٹن سرور کے بعد دوسرا نشان حیدر پانے والے اس دلیر کی بات کریں جس کی وجہ سے ہم پر امن زندگی گزار رہے ہیں
میں اپنی فوج کے اس شاہ کی بات لکھوں جو بھارت کی سازش کو ناکام بنا گیا۔شائد اس وقت کوئی تاجر حکومت میں نہیں تھا ورنہ اس ایکشن کو لکشمی پور میں ہوا یہ کہہ دیتا کہ ہماری فوج کا ایڈوینچر ہے
آج کہانی بیان کروں گا اس بیٹے کی جس نے متحدہ پنجاب کے شہر ہشیار پور میں 1914میں آنکھ کھولی جس کا نام محمد طفیل رکھا گیا ہشیارپوری گجروں کے گھر لویریوں کا دودھ پی کر جوان ہونے والے طفیل نے متحدہ ہندوستان کی فوج میں 1943 میں کمیشن حاصل کیا اس وقت16پنجاب تھی پاکستان بننے کے بعد یہ 13پنجاب ہو گئی۔پاکستان بن گیا وہ پاکستان جس کے لئے دس لاکھ شہادتیں دی گئیں 55ہزار عورتیں سکھوں کے حرم میں چلی گئیں اتنی ہی پنجاب کے اندھے کنووں میں پھینک دی گئیں دوستو! ضیاء شاہد کو پڑھو خدارا اپنے بچوں کو کتابیں لے کر دو انہیں کہانی سناؤ اس بیٹی کی جب اسے کنویں میں پھینکا جا رہا تھا تو اس نے ٹیٹھ پنجابی میں پوچھا ابا کیوں کھو وچ سٹن لگے او جواب ملا یا کسی سکھ کے ہتھے چڑھو گی یا اللہ کے پاس شہید ہو کر جاؤ گی کہنے والے کہتے ہیں اس نے کہا فیر پانی دے وچکار سٹیں میں زخمی بدن نال اللہ نوں منہ نئیں دسناں۔جب ایک ریٹائرڈ عربی جرنیل نے یہ کہا کہ عرب نیشلزم ایک قوت ہے تو میں نے عربی میں ہی جواب دیا کہ جی ہاں ایک آواز اٹھی تھی وادی ء فارں سے اور کسی عرب نے کہا تھا آؤ اللہ کی طرف کلمہ شہادت پڑھو ہم تو عربی نہیں جانتے تھے ہم بھی ہندوؤں کی طرح آلو گوشت کھاتے تھے ہماری زبان ایک تھی باتیں ایک جیسی کرتے تھے لیکن ہم نے دور دراز ہند کے کونوں سے آواز لگائی اللہ ایک ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں واہ جنرل صاحب واہ اب پیسے ہتھے لگے تو کہہ دیا جاؤ تم کون ہو۔اور سنیں میں جس عمران خان کی پارٹی کا عہدے دار ہوں ترجمان ہوں یہ بھی سن لیں ہم شہاۃ نہیں ہیں کہ آپ کے آگے ہاتھ پھیلائیں ہم جی لیں گے آپ کے بغیر بھی لیکن یاد رکھئے دشمن ازلی بھارت ہے ہم تو اللہ کے کرم سے آپ اور ان کے درمیان ایک دیوار ہیں اور ہم نے
اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فیصلے دل وجاں سے مانیں ہیں۔کوئی ہو نہ ہو ہم پاسباں ہیں اس کے یہ پاسباں ہمارا ہے سر کدھر گیا آپ کا جمال عبدالناصر کہاں ہے قذافی اور کدھر ہے صدام ہم جب تک اسلام کی بنیاد کو اللہ کی رسی کو ایک ساتھ نہیں پکڑتے ہم خاک ہو جائیں گے۔اور جب شہادتوں کا ذکر کیا اس جوان بیٹی کنوئں والی کی بات ہوئی تو جنرل صاحب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور پاکستان کی تعریف کی میں نے انہیں عربی میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام رکھا جس کا ترجمہ ارض للطیبین ہے۔
یہ کہانی ایک اسی مجاہد کی ہے اسی دھرتی کے لوگوں کی ہے جہاں چودھری رحمت علی پیدا ہوئے جو اب بھی ترس رہے ہیں کہ کب وعدہ پورا ہو گا کب مجھے بریطانیہ سے لایا جائے گاَانشاء اللہ ارشد داد اس کام
پر لگے ہوئے اللہ کرے گا عمران خان وہ بھی ایفاء کریں گے۔
میجر طفیل پاکستان بننے کے بعد بورے والا وہاڑی کے چک نمبر253EBمیں آن بستے ہیں۔انہیں اپنی رجمنٹ میں ذمہ داریاں دی گئیں جو باحسن انجام دیں اور1958میں ایسٹ پاکستان رائفلز کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا دشمن نے بین الاقوامی بارڈر کی خلاف ورزی کی جو وہ آج بھی کر رہا ہے اور آج بھی منہ کی کھا رہا ہے
بھارت نے ایک پوسٹ پاکستانی حدود کے اندر بنا لی کمانڈر نے تین حصوں میں اپنے لوگ تقسیم کئے اور خود سامنے سے کمانڈ کی سات اگست کی رات کو انہوں نے مکار دشمن سے نپٹنے کی ٹھانی اور آگے بڑے سامنے سے توپ کے فائر آئے گولیاں برسیں 15گز کے فیصلے سے جا کر گرینیڈ سے حملہ کیا یاد رہے اس سے پہلے تین گولیاں ان کے پیٹ میں لگ چکی تھیں اور خون کے فوارے بہہ رہے تھے میجر طفیل گجر
دشمنوں پر جپٹتے رہے ایک اور جگہ سے فائر ہو رہا تھا بزدل دشمن چوکی چھوڑ کر بھاگ گیا میجر نے للکرا مار کر کہا میں نے اپنا کام کر دیا دشمن بھاگ رہا ہے اس معرکے میں انڈیا کے چار فوجی جہنم واصل ہوئے تین کو قیدی بنایا گیا۔انہیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ تین گولیوں کے لگنے سے جانبر نہ ہو سکے اور جان اللہ کے حوالے کی۔میں اس بہادر صحافی کو بتانا چاہتا ہوں جس کے پیٹ میں آٹھ گولیاں لگی تھیں اور وہ اب تک اپنے قلم اور زبان سے پاک فوج پر حملہ کرتا رہتا ہے۔گولی بابے شیخ کی دکان سے بھی ملتی تھی اور گولوں لکڑ کے پستول والی بھی ہے۔کاش کوئی اس ماڈرن سلطان راہی کا فرانزک کرائے کہ میجر طفیل تین گولیوں کھا کر دنیا سے روٹھ گیا جو گھر کی بھینسوں کا دودھ پیتا تھا جس کی زمینداری تھی جو ایک بہادر قبیلے کا فرد تھا بس پوچھنا یہ ہے کہ اس مہاشے کو کون سی گولی لگی جو اب تک جسم میں رہ
اسے پر سکون بنا چکی ہے۔میجر طفیل فاتح لکشمی پور کو بعد از مرگ نشان حیدر دیا گیا۔انڈین فورسز نے ان کی بہادری کی گواہی دی اور اللہ کے اس مرد جنت کو پاک فوج نے سب سے اعلی اعزاز دیا۔
Vedleggsområde