امیگریشن اتھارٹی کو حکومت کی جانب سے یہ اجازت دینے پر غور کیا جا رہا ہے کہ ایسے افراد جو کہ نارویجن فیملی کے عزیز ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انکا ڈی این اے ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ ایک تجویز ہے جس پر بحث کی جارہی ہے۔جلد ہی اسکا بل منظور ک رلیا جائے گا۔ اس بل کو اکثریت کی حمائیت حاصل ہے۔
نارویجن وزارت برائے بچوں کی حفاظت اور برابری کے حقوق کی وزیر لنڈا ھف مین Linda Hofstad Helleland, .
نے کہا کہ یہ قانون نارویجن قانون برائے بچوں کے تحفظ اور حقوق کے تحت بنایا جا رہا ہے تاہم ڈی این اے ٹیسٹ میں ناکام ہونے کی صورت میں بچوں کی اسمگلنگ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
اس وقت امیگریشن حکام درخواست دہندگان کا ڈی این اے ٹیسٹ لینے کے مجاز نہیں۔یہ ٹیسٹ بالخصوص ان ممالک کے شہریوں کے لیے مفید ہو گا جہاں سے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ یا کوئی دوسرے شناختی کاغذات حاصل کرنا مشکل ہو۔اگر کوئی بچہ نارویجن والدین کی اولاد ہو تو وہ خود بخود نارویجن پاسپورٹ کا حقدار بن جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں ناروے میں پندرہ ہزار پانچ سو افارد نے نقل مکانی کی جس میں سے ایک ہزار آٹھ سو افراد اپنے خاندان کی وجہ سے یہاں سیٹ ہوئے۔دو ہزار دس میں امیگریشن نے یہ ڈی این اے ٹیسٹ ایک ساتھ رہنے والے جوڑوں کو کیے۔جن میں سے چالیس فیصد بہن بھائی تھے۔جو کہ ناروے میں رہائش کا حق نہیں رکھتے تھے۔
NTB/UFN