مانچسٹر کی خوبصورت فضائوں‌میں‌قسط نمبر ۳..

سفر نگار شازیہ عندلیب

مانچسٹر کاؤنٹی میں واقع بلیک برن کا نام اس میں بہنے والے دریا کی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔ لفظ بلیک وہاں کے ایک دریا کا نام تھا جبکہ برن کے معنی ندی کے ہیں۔اس طرح اسکا نام بلیک برن پڑ گیا اسکا حوالہ وہاں کے مقامی لکھاری ولیم ابرام اپنی کتاب دی پیرش The Perish میں بھی دیا ہے۔اس ڈسٹرکٹ میں دوسرا بڑا اقلیتی گروپ پاکستانیوں کا ہے۔آخری مردم شماری کے مطابق اس وقت اس ڈسٹرکٹ میں ستائیس ہزار پانچ سو پچیس پاکستانی آباد ہیں۔ان میں اکثریت کا تعلق میر پور سے ہے۔اگر آپ بلیک برن کے مقامی بازاروں میں جائیں وہاں پر اکثرروکا ندار اپنجابی بولنے والے ملیں گے۔یہاں کے مقامی بازارمیں بھی کافی کم قیمتوں پر لباس اور دیگر اشیاء مل جاتی ہیں۔مگر کچھ کا مزاج بھی پاکستانی ہے یعنی کہ بعض دوکانوں پہ شاپنگ کر کے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں آنے کے باوجود سوچ پاکستانی ہی ہے۔کئی کپڑوں کی دوکانوں پر سیلز میں کا اصرار تھا کہ ادائیگی ٹرمینل کے بجائے کیش پر ہو گی جس کی وجہ سے ہمیں وہاں ایک کیش ٹرمینل تلاش کر کے رقم نکلوانی پڑی۔
ایک خاتون سیلز گرل نے معذرت خواہانہ انداز میں بتایا کہ سوری جب سے کورونا کی وباء پھیلی تھی ہمارا پیمنٹ ٹرمینل بھی اس وقت سے خراب ہوا تو پھر دوبارہ ٹھیک ہی نہیں کروا سکے ہم۔میں نے تاسفانہ انداز میں تائید کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں سمجھ سکتی ہوں آپ کے ٹرمینل کو بھی کورونا ہو گیا ہو گا اسی لیے وہ دوبارہ ٹھیک نہ ہو سکا۔
ذرا آگے گئے تو وہاں جیولر کی دوکان نظر آئی میں اصل پتھروں والی جیولری کی تلاش میں دوکان میں داخل ہوئی۔خوش قسمتی سے یہاں بھی دوکاندار پاکستانی نکلا اور نہ صرف پاکستانی بلکہ مزاج بھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ میں برطانیہ کے بازار کی ایک دوکان میں کھڑی ہوں یا راولپنڈی کے موتی بازار کی دوکان میں!!
۔میں نے سیلز مین سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اصلی زمرد یا فیروزے کے پتھروں کی جیولری ہے؟
اس دوکاندار کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔میں حیرت میں پڑ گئی۔اس نے بات ہی ایسی کی تھی۔وہ بڑے دعوے سے ہاتھ ہلا کے اور سر آگے کر کے بولا۔۔۔

باجی آپ کو اصلی پتھر کا زیور پورے برطانیہ کی کسی جیولر کی دوکان سے نہیں ملے گا۔
اچھا!! میں نے بھی اسے فوراً اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پڑی زمرد کی انگوٹھی دکھاتے ہوئے کہا۔کیوں نہیں ملے گی اصل پتھر کی جیولری یہ دیکھیں میں نے یہ انگوٹھی برطانیہ سے ہی خریدی ہے۔
اچھا آپ نے یہ یہاں سے خریدی ہے۔جیولر حیرت سے بولا۔ہاں بالکل میں نے یہ انگوٹھی دو سال پہلے لندن سے خریدی تھی۔اب دوکاندار پولا سا منہ بنا کے اچھا بولا۔میں اپنی ہنسی روک کے دوکان سے باہر نکل آئی۔بعد میں مجھے خیال آیا کہ اللہ جانے اسکا جغرافیہ کیسا ہو گا کیا پتہ دوکاندار بلیک برن میں ہی پیدا ہوا ہو اور اس سے باہر کبھی نہ گیا ہو اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ لندن برطانیہ میں ہے یا پاکستان میں۔کیونکہ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ایک جاننے والے عرصہ دراز سے لندن میں رہائش پذیر تھے۔اپنا بزنس تھا شب و روز پاؤنڈ کمانے اور مال بنانے میں ہی گزر جاتے تھے۔ایک مرتبہ ایک قریبی عزیز ان کے گھر ٹھہرے اور لندن ٹاور کی سیر کرنے انکے ساتھ نکلے۔ان لندن والوں نے بتایا کہ ہماری پوری زندگی یہیں گزری ہے مگر ہم نے کبھی لندن کی سیر نہیں کی بلکہ ہم تو لندن ٹاور بھی پہلی بار دیکھنے آئے ہیں۔اسی طرح جب میں نے سفرنامہ کی کتاب” منزلوں کی کہکشاں ” لکھی کئی قارئین نے بتایا کہ آپ نے تو ہمیں پورے پاکستان کی سیر کروا دی ورنہ ہم تو بس پاکستان میں صرف اپنے گاؤں یا شہر اور وہاں رشتہ داروں سےہی مل کر آ جاتے تھے۔خیر تھوڑی بہت بلیک برن کی سوغاتیں اور بچوں کے لیے خرید کر ہم لوگ سر شام گھر کو لوٹے۔راستے میں بلیک برن کاؤنٹی اور اس کے
مضافات کے سبزہ زار اور جنگلات اور باغات دعوت نظارہ دیتے رہے۔میں یہ دعوت یہ سوچ کر اپنی نگاہوں کو خیرہ کرتی رہی
جیسا کہ اللہ تبارک فرماتا ہے کہ اے بندوں میری زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ تمہارے رب نے
کیا کیا نعمتیں پیدا کی ہیں۔
بس میں تو یہ سوچتی رہ گئی کہ جس رب نے اتنے حسین نظارے تخلیق کیے ہیں۔وہ خود کتنا حسین ہو گا؟ہر جانب شام کے ملگجے اندھیرے میں ایک وجد آفرین حسن پھیلا تھا۔
گھر پہنچے تو ایک فیملی اٹلی سے ملنے آئی ہوئی تھی ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔میں ان مہمان خاتون کے بارے میں جان کر حیران ہوئی کہ وہ اٹلی میں مترجم کی جاب کرتی ہیں اور انہوں نے قرآن پاک بھی حفظ کر رکھا تھا۔ہمیں ایک فیملی نے گھر پہ دعوت بھی دے ڈالی جسے سن کر بجائے خوشی کے پریشانی ہوئی کہ اتنے تھوڑے وقت میں ہم کیا کریں گے خیر پھر شائید انہیں رحم آ گیا اور دعوت کینسل ہوئی۔ورنہ مجھے یاد ہے پچھلی مرتبہ اٹلی کے ٹور پر میری ایک دوست نے جو انٹر نیٹ پہ ہی دوست بنی تھی اس نے میری اور میری میزبان فیملی کی دعوت کی جو کہ بہت عزت افزائی کی بات تھی مگر یہ عزت افزائی اس وقت مہنگی پڑنے کے امکانات ہو گئے جب ان کی اپنی عزت خطرے میں پڑنے کے امکانات ہو گئے۔کیونکہ۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں