عارف محمود کسانہ
ہمارے اکثر مذہبی حلقوں کا خیال ہے کہ اسلام کے خلاف یہودو نصاریٰ سازشوں میں مصروف اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے نت نئے منصوبے تیار کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں یہ مسلمانوں سے نبرد آزما رہے ہیں اور صلیبی جنگوں کی بھی ایک تاریخ موجود ہے لیکن اس کے باوجود دور جدید میں اسلام کو سب سے بڑا چیلنج ماڈرن ازم سے درپیش ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اہل مغرب کے لیے مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اور ان کی غالب اکثریت لادین ہے ۔ وہ برائے نام عیسائی ہوسکتے ہیں لیکن اپنے مذہب کے لیے کچھ سوچنا یا اس کے لیے مصروف عمل ہونے کی ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اسٹاک ہوم سٹڈی سرکل کے تحت اہل علم ودانش کی حالیہ ماہانہ نشست میں ماہر تعلیم ڈاکٹر سہیل اجمل نے بہت اہم حقیقت بیان کی کہ موجودہ دور میں ماڈرن ازم مذہب کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسی ماڈرن ازم کو تقویت دینے کے لیے جمہوریت، سیکولرازم ، نیشنل ازم اور لادینیت کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یورپ میں آنے سے قبل راقم کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ مغرب میں سب عیسائی ریاستیں ہیں اور یہ لوگ اپنے مذہب کے لیے ہماری طرح جذبات رکھتے ہوں گے لیکن تصور کا یہ قلعہ جلد ہی مسمار ہوگیا اور جب کوئی خدا پر ایمان رکھنے والا شخص ہی مل جاتا تو غنیمت سمجھنے لگے۔ ماڈرن ازم کے اس دور میں اس مادر پدر آزاد جمہوریت کا درس دیا جاتا ہے جس میں جو چاہے قانون بنا سکتے ہیں اور ایسے قوانین موجود ہیں کہ عیسائیت گرجاگھروں کے اندر سسکیاں لیتے ہوئے بے بسی کی حالت میں ہے۔ نیشنل ازم سے انسانوں کو محض جغرافیے اور زبان کی بناد پر تقسیم کردیا جاتا ہے جبکہ یہی کام جمہوریت میں مختلف سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ قرآن حکیم نے فرعون کے جہاں دیگر جرائم کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بھی کہا کہ وہ لوگوں کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کروا دیتا تھا جیسا کہ سورہ القصص کی چوتھی آیت میں ذکر ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ہونے والی فرقہ واریت کے خلاف تو بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن جو فرقہ واریت سیاسی بنیادوں پرہوتی ہے اس طرف کسی کی نظر نہیں جاتی اور وہ بھی تو قابل مذمت ہے۔ خدا نے ہمیں فرقوں میں بٹنے سے منع کیا ہے وہ چاہیے مذہب کی بنیاد پر ہو یاسیاست کی بنیاد پر۔ ماڈرن ازم میں سیکولرازم پر بہت فخر کیا جاتاہے اور یہ بات یاد رہے کہ سیکولر ازم میں وحی کا کوئی تصور ہی نہیں گویا ایسا میچ جس میں کوئی باؤنڈری لائن نہیں ہیں جبکہ اس کے برعکس مسلمان ہونے کے لیے لاالہ الا اللہ کا انقلابی نعرہ لگانا پڑتا ہے ۔ یہ وہ تصور ہے جو ایک مسلمان کو سب سے ممتا زکرتا ہے۔ الہ کہتے ہی اسے ہیں جس کی محکومیت اختیار کی جائے اور شائد اس لفظ کا کسی بھی زبان میں مترادف موجود نہیں ہے۔ یہ محکومیت اس الہ کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرکرکے ہی اختیار کی جاسکتی ہے۔ ہمارا تعلق ہمارے الہ سے اس کی کتاب کی وساطت سے ہے اور اس پر ایمان لانے کا مطلب علمی طور پر اس احکامات اور قوانین کی پیروری ہے۔ ایک شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے اور ایک نہیں رکھتا، ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اور پھرمحض ایمان رکھنا ہی کافی نہیں بلکہ خدا کو الہ ماننا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم اہل کتاب سے بھی ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرآن حکیم بار بار غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کائناتی نظام اس پر شاہد ہے کہ خدا کے ساتھ کوئی اور الہ نہیں۔ ارض و سما میں وہی الہ ہے اور جب تم اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہو تو پھر تمہیں اپنی زندگی میں بھی اسے الہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے احکامات و قوانین پر عمل پیرا ہونے میں کیا امر مانع ہے۔
ماہر اقبالیات پروفیسر محمد شریف بقا اپنی کتاب موضوعات خطبات اقبال میں توحید کے حوالے سے علامہ کی فکر یوں بیان کرتے ہیں کہ عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات حریت اور استحکام میں ہے۔اسلام کے زاویہ نگاہ سے سیاست ان مثالی اْصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے۔ علامہ اپنے چھٹے خطبہ میں فرماتے ہیں کہ اسلام ایک عالمگیر اور انسانیت سا زانقلابی دین ہے جو زندگی کے تمام اہم شعبہ جات مثلاًمعاشرت،سیاست،تہذیب،ثقافت،اقتصادیات اور اخلاقیات میں رہنما اْصول مہیا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اسے زندگی کا مکمل ضابطہ کہا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کی بنیاد عقیدہ توحید ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے خلقکم منِ نفس واحدہ (4:1) یعنی خدا نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے۔ تمام انبیائے کرام خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی محکومیت اختیار کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔وہ اپنی قوم کو خدائے واحد کی غلامی کا درس دیتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ اے قوم! تم سب اللہ کی غلامی اختیار کرو(11:84)۔یہ قرآنی آیت بھی خدا کی وحدانیت پر زور دیتی ہے الٰھکم اِلہ واحد یعنی تمہارا اِلہ خدائے واحد ہے(22:34) ۔اس زاویہ نگاہ سے آسمانی کتب اور انبیائے کرام کی تعلیمات کا خلاصہ عقیدہ توحید ہی تھا۔ہمارے ہادی اعظم حضرت محمد ﷺبھی لوگوں کو ایک خدا کے عقیدے کی طرف متوجہ کرتے رہے۔ جب خدائے واحد ہی تمام انسانوں کا خالق‘مالک اوررزّاق ہے تو پھر کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنائے۔ماڈرن ازم میں خدا کی ہستی کا اقرار تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے الہ نہیں مانتے اور اپنی نجی زندگی ہو یا اجتماعی اس کے فیصلے اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ خدا کے احکامات کی تعمیل کی بجائے اپنے جذبات کی پیروی کی جاتی جسے قرآن حکیم نے سورہ فرفان کی آیت 43اور سورہ الجاثیہ کی آیت 23میں بیان کیا ہے کہ وہ جنہوں نے اپنے جذبات کو اپنا الہ بنا لیا ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں علامہ اقبال نے بزبان ابلیس اپنے چیلوں کو یہ پیغام دیا کہ مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے جبکہ ہمارے نزدیک یہ ماڈرن ازم کسی فتنہ فردا سے کم نہیں اور اس کا حل ضرب لاالہ الا اللہ میں ہے۔