ترتیب:ڈاکٹر شہلا گوندل
تصاویراور تحریر:افضل محمود
افضل محمود جو ایک ریٹائرڈ سابقہ فوجی افسر ہیں، انہوں نے ایک فلاحی تنظیم اور ڈاکٹروں کے ایک گروہ کے ساتھ جنوبی پنجاب اور سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ بچوں،بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں سے بات چیت کی اور ان کی کہانیاں سنیں-
میرے پاس احساس ہے مگر الفاظ نہیں ہیں۔آج میں نےگوٹھ کاندڑو ٹانڈو مستی میں گیا اور وہاں کی خواتین ، جانوروں اور کھیتوں کی اذیت اور دکھ کی داستانیں اکٹھی کیں-
ان بچیوں کو شعوری طور پتہ ہی نہیں کہ ان پر کیا گزر گئی ہے۔ لیکن انکی خوف زدہ ، الم زدہ پتھریلی آنکھیں بتاتی ہیں کہ سیلاب نے ان پر کیا اثرڈالا ہے۔
بہت سے جانور یا تو مرگۓ یا بیمار ہوگۓ یا سستے داموں بیچ دیے گیۓ یہ میمنا سیلاب کے عذاب کےدوران پیدا ہوا مگر بچ گیا!ا س گاؤں کے لوگ بہت مہمان نواز تھے- انہوں نے مجھے چاۓ پلائی ۔۔۔پلنگ دیا اسپر رلی بچھائی اور تکیہ بھی دیا۔ آج بھی بھی میں نے اپنے ڈیلیگیشن اور گاؤں والوں کو کھانے میں سندھی بریانی کی تین دیگیں پیش کیں۔ چاول بہت مزے کے تھے تو میں نےدیگ پکانے والے کو ایک ہزار روپے انعام بھی دیا۔
اس گاؤں میں ایک گونگا مجھے ملا تو سائن لینگوج میں مجھے طعنہ دے گیا کہ سب ووٹ لینے آتے ہیں پھر ہمیں بھول جاتے ہیں۔ اور اس عذاب میں تو ان میں سے کوئی نہیں آیا۔ میں نےاسکی کہانی ریکارڈکی تو اسنے اپنا نمبر بھی مجھ سے شئیر کرلیا!
ایک اور گوٹھ ہے جو میں نے وزٹ کیا؛
انسان کی بے حسی اور نالائقی سے نازل شدہ عذابوں اذیتوں، بلاؤں اوردکھو ں کو بھلا کوئی نام دیتا ہے۔ یہ تو انسانی تاریخ کا محرم کے ماہ میں دوسرےماتم کا مقام ہے۔
اگر سرکار اور اشرافیہ سوچ سکتے اور باقاعدگی سے برساتی نالوں کی صفائی کروائی جاتی تو کھیت، کھلیان ، گاؤں ، گوٹھ اور غربت میں پسے کسانوں کے کچے مکان نہ گرتے اور وہ سڑکوں پہ، کھلے آسمان کے نیچے، ترپالوں میں پناہ گرین نہ ہوتے۔ اذیتوں سے بھرے دن رات انکا مقدر نہ ہوتے۔ اب تو انکے پاس بیچنے کو صرف درد بھری کہانیاں ہیں!