”مظفر فہمی “پر ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر منصور خوشتر
ایڈیٹر سہ ماہی ”دربھنگہ ٹائمز“ دربھنگہ

”مظفر فہمی“ان قلمکاروں کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے مختلف ادیبوں نے اپنے منفرد اندا ز میں تحریر کیا ہے۔ ان کے صاحبزادے انجینئر فیروز مظفر نے اس کتاب کو ترتیب دے کر شائع کروایا ہے۔ مظفر حنفی کا ادبی سفر کم و بیش ستر برسوں پر محیط ہے ۔ شعر وادب کی تقریباً سبھی مروجہ اصناف میں انہوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن اس کے علاوہ تنقید و تحقیق، ترتیب و تدوین، ناول، افسانہ، ترجمہ، سفرنامہ، مزاح نگاری اور ادب اطفال کے میدانوں میں انہوں نے کام کیا ہے۔
مظفر حنفی کی شعر گوئی کا آغاز ۶۵۹۱ءمیں ہوا۔ یہی دور اردو ادب میں جدیدیت کے آغاز کا دور رہا ہے۔ غزلوں اور نظموں کے علاوہ موصوف کے شعری سرمائے میں ساٹھ ستر رباعیات بھی شامل ہیں جو قابل توجہ ہیں ۔ اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں موصوف کا شمار افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا اور ہند وپاک کے مو ¿قر رسائل و جرائد میں ان کے افسانے شائع ہوتے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے بچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں بھی لکھیں جو بچوں کے رسائل میں شائع ہوئیں ۔ ان میں چند منتخب کہانیاں ، کتابی شکل میں چھپ چکی ہیں ۔ پھر شاعری کا اہم دور رہا ۔ شاعر کے بعد ان کے دوسرے اہم کام تحقیق و تنقید کے میدان میں نظر آتے رہے۔ اب تک ان کی چودہ تحقیقی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔” شاد عارفی : شخصیت اور فن “ ان کا نمایاں کارنامہ ہے۔
اس کتاب میں شامل پہلا مضمون ”مظفر حنفی “کے عنوان سے ہے جسے پروفیسر وہاب اشرفی نے تخلیق کیا ہے۔ اپنے جامع مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی ایک پر گو شاعر اور ادیب ہیں۔ انہوں نے شاعری کو مرکزی حیثیت تو دے ہی رکھی تھی اس کے علاوہ افسانہ نگاری سے بھی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ تحقیق و تنقید سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔
مظفر حنفی کے زبان و بیان پر اردو ادب کی معروف شخصیت گوپی چندنارنگ لکھتے ہیں:
”یہ زبان کے زمینی استعمال کی وہ خواہش ہے جو معنی کی لگام روایتی زبان کے ہاتھ میں دے کر اس کے سپاٹ اظہار کے خلا ف ہے اور خیال کی شدت اور تازگی کو نباہنے کے یے بولی ٹھولی اور گفتگو کے سیدھے اور سچے مکالماتی انداز سے طاقت حاصل کرتی ہے اس سے ڈاکٹر مظفر حنفی کے لہجے میں کھنک اور آواز میں کاٹ پیدا ہوگئی ہے جو کہیں کہیں شوخی، کھلنڈرے پن تک پہنچ جاتی ہے۔ “
(”مظفر حنفی : ایک مطالعہ“ فیروز مظفر ، نئی دہلی، ۹۹۹۱ء، ص: ۰۶۴)
ڈاکٹر خوشحال زیدی (مرحوم) مظفر حنفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی کی ادبی زندگی کا آغاز بچوں کے شاعر اور ادیب کی حیثیت سے ہوا۔ لیکن وہ ادب میں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ ۱۵۹۱ءسے ۴۶۹۱ءکے دوران انہوں نے بے شمار افسانے لکھے جو متنوع موضوعات کے حامل رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے ادبی رسالوں کی زینت بنے۔ ”اردو کا جام جہاں نما: پروفیسر مظفر حنفی “ کے عنوان سے فاروق ارگلی نے ایک طویل مضمون قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پروفیسر مظفر حنفی معاصر اردوادب کی ایک ایسی ہزار رخی شخصیت ہیں جن کے علمی، فکری اور فنی پھیلاﺅ کا ذکر اخبار کے اس ایک صفحے میں یوں ممکن نہیں کہ دریا کو کوزے میں سمو دینے کا ادعا ہے نہ استطاعت ، یوں بھی جناب مظفر حنفی کے ذاکروں کے سامنے سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ موصوف ایک وقت شاعر ہیں۔ افسانہ نگار ہیں، ادبی صحافی ہیں، محقق ، ناقد و مبصر ہیں، ماہر لسانیات و کتابیات ہیں ، غیر زبانوں کے مترجم ہیں ، ہندوی ، دیومالا اور اساطیری ادب میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
حلیم صابر کا تعلق سرزمین کولکاتا سے ہے۔ وہ استاذ الشعرا ءہیں۔ شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ شاعری کے علاوہ نثری مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔ ”نازش شہر ادب بلند پایہ علمی وادبی شخصیت: ڈاکٹر مظفر حنفی “ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی صاحب کے علمی وادبی سرگرمیاں نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں جن میں درس و تدریس کے فرائض بھی انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیے جس کا اعتراف ان سے مستفیض ہونے والے طالب علموں نے کیا ہے۔ مظفر حنفی کی تدریسی خدمات کے علاوہ تخلیقی اور تالیفی سرگرمیاں بھی قابل قدر ہیں۔ اپنی شاعری اور نثر نگاری دونوں میں اپنے شعور لفظی کا استعمال اس انداز سے کیا ہے کہ اس میں ان کا مخصوص اسلوب موضوعات کو جدید ہیئت سے آشنا کرتا ہے جس سے ارتقائی صورت حال واضح ہوتی ہے۔ اس کا اعتراف بہت سے ادیبوں نے کیا ہے۔
پروفیسر محمد نعمان خاں (بھوپال) نے مظفر حنفی سے متعلق بڑی دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مظفر صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک ادارہ تھے ۔ ”میں اپنی تسبیح روز شب کا حساب کرتا ہوا دانہ دانہ“کے مصداق انہوں نے وقت ضائع نہیں کیا۔ اس کی اہمیت کو سمجھا اور تمام عمر زبان وادب کی تخلیق، تدریس اور ترویج و اشاعت میں صرف کردی۔ وہ زود نویس اور زود گو قلم کار تھے لیکن زور نویسی اور زود گوئی کے باوجود انہوں نے ادبی معیار و وقار کو متاثر نہیں ہونے دیا ہے۔ ان کی تخلیقات ، ان کی شخصیت ، عہد ، مزاج و ماحول اور طرز فکر و نظر کی عکاس ہیں جس میں ان کا اپنا منفرد و مخصوص اسلوب اور لہجہ منعکس ہوتا نظر آتا ہے۔
ایس ایم حسینی ”پروفیسر مظفر حنفی : پانچواں درویش “ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی کی شخصیت ٹوبہ ٹو اور رنگ برنگ روپ کی حامل رہی ہے۔ آپ نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور جس میدان میں بھی قلم کو جنبش دی اپنی انفرادیت اور امتیاز کو برقرار رکھا ، خواہ وہ افسانہ نگاری کا خانہ ہو یا شاعری کا پیمانہ ، کبھی ادب اطفال میں بچوں کے لیے خوبصورت کہانیاں بنتے ہیں تو کبھی تراجم میں اپنی مہارت سے مبہوت کر دیتے ہیں، آپ نے ۸۴۹۱ءمیں محض بارہ سال کی عمر میں بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے چٹکلوں پر مشتمل کہانیاں، نظمیں لکھنی شروع کیں، جو پہلے پہل بچوں کے رسالہ ”کھلونا “، ”ٹافی“، ”کلیاں“ اور ”دوست“ وغیرہ میں چھپیں ۔
ڈاکٹر مشیر احمد (دہلی) مظفر حنفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ پروفیسر مظفر حنفی کی شخصیت ادبی اعتبار سے متنوع ہے ۔ انہوں نے افسانہ نگار، شاعر، محقق، ناقد، مدون اور مترجم کی حیثیت سے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ مظفر حنفی نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور صحافت کے میدان میں اپنے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں۔
”چل چنبیلی باغ میں“ مظفر حنفی کا پہلا سفرنامہ ہے۔ اس کتاب کا جائزہ ڈاکٹر افضال عاقل (کولکاتا) نے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی نے سفرنامے کو بڑے دل پذیر اور موثر انداز میں لکھا ہے۔ انہوں نے برمنگھم کے مقامات و واقعات کا ذکر اس شگفتہ اور شستہ انداز میں کیا ہے کہ قاری کی توجہ ورق سے بیگانہ نہیں ہوتی ہے۔ اس میں تخلیقیت کا عنصر بھی پنہاں ہے نیز جزئیات نگاری اور مرقعے کشی نہایت آباد اور پر اشک ہیں۔ یہ سفر نامہ دیگر سفرناموں سے منفرد ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کے اسباب و محرکات ، مقاصد اور عوامل کا ساباقہ روایتی اسفار سے قطعاً علیحدہ ہیں کیونکہ ڈاکٹر مظفر حنفی کے اس سفرنامے کا مقصد نہ تو سیاحت ہے نہ تجارت، نہ سفارت، نہ حصول تعلیم ، نہ ملازمت اور نہ ہی کسی سیمینار و مشاعرے میں شرکت۔
ڈاکٹر محمد خوشتر (حیدر آباد) ”مظفر حنفی کی وضاحتی کتابیات: ایک جائزہ“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی نے اردو زبان وادب کے کتابوں کی نشر واشاعت کے سلسلے میں اردو ادب کی بڑی خدمت کی ہے اور خاص طور سے ہم جیسے ماہل وسست طلباءکے لیے ان کی گراں خدمات ہیں تاکہ طلبا و طالبات اور علوم و فنون سے دلچسپی رکھتے والے افراد اپنی مطلوبہ کتاب، مضامین تک آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ انہوں نے کابوں کے موضوعات کے ساتھ ان باتوں کی بھی نشاندہی کی ہے کہ یہ کتاب کب چھپی ، کہاں سے چھپی ، کیسے چھپی، مصنف ، مرتب ، مترجم ، مولف ، شرح نویس اور حاشیہ نگار وغیرہ کا نام بھی بیان کیا ہے تو ساتھ ہی ساتھ کتاب کے صفحات ، مکتبہ کانام، ناشر، زیر اہتمام ، سائز اور کاغذ پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔
ڈاکٹر صوفیہ شیریں (کولکاتا) مظفر حنفی کے افسانوں کی عصری معنویت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مظفر حنفی کے افسانوں کے ایسے کردار ذہن و دل پر چھا جانے والے ہیں ، جو سینہ تان کر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ہیرو ٹائپ کردار نہیں ہیں لیکن مثالی ضرور ہیں۔ ”ملا کی دوڑ“ کا حمید بھی حالات کے آگے سپر نہ ڈال کر دو معصوم بچوں کے سر پر دست شفقت رکھتا ہے اور حالات کو بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
ڈاکٹر وکیل احمد (دربھنگہ) نے مظفر حنفی کے افسانوں میں انفرادی پہلو کی تلاش کی ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی کے لکھنے کا انداز بالکل سادہ ہے جو قاری کو آسانی سے سمجھ میں بھی آجاتا ہے۔ کہانیوں میں زندگی کے کئی لمحات کئی پہلو قید کرلیے جاتے ہیں۔ ان کے افسانے ہر خاص و عام میں پسند کئے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے تقریباً ہر موضو ع پر افسانے لکھے ہیں سوائے رومان کے۔ ان کے افسانے مقصدی اور سماجی ہوتے ہیں ۔ انہوں نے سماج کی جڑوں میں پوشیدہ برائیوں کو اپنے افسانوں کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں کا پلاٹ ہلکا پھلکا اور ان کی زبان سادہ اور سلیس ہوتی ہے۔
”بول میری مینا“ پر ایک ناقدانہ جائزہ پیش کرتے ہوئے امام الدین امام لکھتے ہیں کہ پروفیسر مظفر حنفی بچوں کی نفسیات سے عام لوگوں سے زیادہ واقف تھے۔ ان کی ایک اہم فطرت ہر بات پر سوال کرنا اور اس کے جوابات تلاش کرنے کو بھی انہوں نے نظم کیا ہے۔ بچوں کی ایک فطرت ہے کہ وہ ہر بات پر سوال کرتے ہیں۔ اس کی ترجمانی شاعر نے اپنی نظم ”دادی کی باتیں“ میں کی ہے۔ بچوں کو اپنے دادا، دادی سے زیادہ لگاﺅ ہوتا ہے۔ کیونکہ دادا، دادی بھی اپنا سب سے اچھا ساتھی گھر کے بچوں یعنی پوتا پوتی کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں۔ وہ ان کی تربیت بھی کرتے ہیں ، ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں اور ان کو ہنساتے بھی ہیں۔ ان کے ناز و نخرے بھی اٹھتے ہیں۔
”علم وادب کا درخشاں نگینہ“ کے عنوان سے مدن گوپال نگینہ (امرت سر ) سے لکھتے ہیں کہ اگر ہم دور جدید کی اردو شاعری پر نظر ڈالیں تو دو معتبر نام ابھر کر سامنے آتے ہیں : فراق گورکھپوری اور مظفر حنفی ۔ ان دونوں کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں جس لفظ کو ایک بار استعمال کر دیا دوبارہ اس کا سہارا نہیں لیا، ان کے پاس الفاظ کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ موجود ہے۔
”مظفر حنفی کی غزل میں سماجی بصیرت“ کے عنوان سے ڈاکٹر رونق شہری لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی کی جو شعری کائنات ہے اس میں انسانی جہد و بقا کے مطالعہ کی روشنی میں خوشنما رنگولی میں منعکس ہوتی نظر آتی ہے ، فرد و سماج کے بیچ کی کشمکش ہو یا انفرادی تشخص کے یقین قدر کا معاملہ، ایک گہرا اضطراب زندگی کے کالے سمندر میں موجزن ہوتا نظر آتا ہے۔
فیاض عادل فاروقی (لندن) ”امام طنزیات : مظفر حنفی “ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ پروفیسر مظفر حنفی کے کلام پر کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ میں نے سورج اور چراغ کا نام لیا ہے ایک آگ اور روشنی کا منبع ہے اور دوسرا روشنی اور آگ کا وسیلہ ۔ مظفر حنفی کا کلام آگ اور روشنی دونوں کا مجموعہ ہے۔
ڈاکٹر ذکی طارق مظفر حنفی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مظفر حنفی نے سماج میں رونما ہونے والے حالات کو من و عن پیش کرکے ان حالات کے تناظر میں معاشرہ کی ان اقدار کی نشاندہی کی ہے جن سے معاشرہ متاثر ہورہا ہے۔
مختصر طور پر یہ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ”مظفر فہمی“ایک ایسی کتاب ہے جس میں پروفیسر مظفر حنفی سے متعلق بہت سے مواد کی فراہمی ایک کتاب میں کی گئی ہے۔ اس کے لئے اس کتاب کے مرتب انجینئر فیروز مظفر مباکباد کے مستحق ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں