موریشس میں اقبال پر سیمنار اور میرے خود شناسی کا سفر


آبیناز جان علی
موریشس
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اگست ۲۰۱۶ء ؁ کو میں نے شمالی یوروپ کے لئے رختِ سفر باندھا۔ شمالی جرمنی، نزرلینڈ، ڈینمارک، سویڈن، فن لینڈ اور روس جیسے عظیم ممالک کے سفر نے میری شخصیت پر حیرت انگیزاثرات چھوڑے۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ ممالک فکروعمل کے اعتبار سے اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ موریشس میں میری نسل کے لوگ ان کے برابرنہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی میرے بعد آنے والی نسل بھی ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو پائے گی۔ اس خیال نے مجھے بدلنے پر اکسایا۔ خدا بھی انسان کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود تغیر کی خواہش ظاہرنہ کرے۔ تب میں نے ربِ کریم سے دوراندیشی اور چیزوں کو بہتر سمجھنے کی دعا مانگی۔
اسی سال دسمبر ۲۰۱۶ء ؁ کو مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ اردو کے زیرِ اہتمام اقبال کے سیمنار کی نظامت میرے ذمے آئی۔ سیمنار میں ہندوستان سے آئے ممدوبین کی صحبت کا فیض نصیب ہوا اورتبادلہ خیالات کا موقع ملا جس سے فکر کے نئے دریچے کھل پائے اور اردو کی خدمت کا جذبہ بلند ہوا۔
ماضی میں بھی اقبال اکادمی پاکستان سے موریشس کے سفارتِ پاکستان اور اردو اسپیکنگ یونین کے اشتراک سے اقبال پر متعدد سیمنار ہوئے تھے۔ نومبر ۲۰۱۵ء ؁ کو پروفیسر شاہد اقبال کامران کے دو لیکچرز سننے کا موقع ملا۔ پروگرام کے بعد ان سے ملنے گئی۔ رخصت ہوتے وقت آپ نے مجھ سے کہا: ’’ خد�آپ کو نیک اجر دے۔‘‘ ان کی بات دل کو چھو گئی تھی۔
آپ سے پہلے اقبال اکادمی سے ۲۰۰۷ء ؁ میں ڈاکٹر خرم علی شفیق بھی دوبار آچکے تھے۔ ان سے افسانہ نگاری پر ورکشاپ بھی ہوئی تھی۔ اقبال کے ماہرین کے لیکچرز سے مجھے فائدہ ہوا۔ میری خوابیدہ صلاحیتیں مجھے رہ رہ کر اکسا نے لگیں۔
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
چونکہ میں نے دل سے بدلنے کی خواہش ظاہر کی تھی میرے ماحول میں بھی تبدیلی آگئی۔ دس سال کی ملازمت کے بعد اچانک میرے تبادلے کا خط آیا۔ زندگی میرے دروازے پر دستک دے رہی تھی اور میں اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے پانچ مہینوں کی چھٹی لی۔
تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اپنے معمول سے دور جانا آسان نہ تھا۔ ذہن پر خوف کا احساس غالب تھا۔ عادتوں کی نرم چھاؤں کو چھوڑ کر انجانی راہوں پر چلنے کے لئے ہمت ضروری تھی کیونکہ خوف اور گھبراہٹ اپنے پر پھیلائے یلغار کے لئے ہمہ تن تیار تھے۔ اس وقت اپنے بارے میں ایک اہم سبق یہ جانا کہ آگے جانے کے لئے رکنا ضروری ہے۔ رکنے سے راستے کے دھندلکے میں آگے جانے کا راستہ ملتا ہے۔ ان پانچ مہینوں میں اقبال کے اشعار میرا حوصلہ بنتے گئے:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اس دوران میں نے اپنی کئی عادتیں بدلیں۔ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کے ساتھ جاگ کر ورزش کرناشروع کیا جس سے جسم میں پھرتی کے ساتھ اینڈورفن جیسے مثبت ہارمون پھیل جاتے ہیں اور آنے والے دن کا سامنا کرنے میں ہمت ملتی ہے۔ ورزش سے انسان ہشاش بشاش رہتا ہے اور مایوسی پاس نہیں آتی۔ میں نے اپنی اندرونی کیفیات پر تدبر کیا، مثبت سوچ کا سہارا لیا اورکامیاب لوگوں کی زندگی اور ان کی سوچ سے استفادہ کرکے میں نے اپنے لاشعور سے منفی سوچ نکال کر انہیں مثبت سوچ میں تبدیل کیا۔ ایک سال تک خبریں پڑھنا یا سننامنقطع کردیا کیونکہ ان سے صرف یہ گمان ہوتا تھا کہ زندگی میں برائی کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا۔ جبکہ میرا ماننا ہے کہ سورج ہر روزسب کے لئے نکلتا ہے اور ہر چیزکو روشن کر کے ہمیں دنیا کی رنگینی سے لطف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ اس طرح میں نے اپنے لاشعورمیں مثبت سوچ اپنانے کا مصمم ارادہ کیا۔
اس کے علاوہ میں نے خود کو وقت دینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ خود کی سنی۔ دل سے ذہن تک کا سفر طے کیا اور اپنی روح سے جا ملی۔ اپنے کئی سوالات کے جوابات میں نے تیس سے زائد کتابوں میں تلاش کئے۔ ایک جواب مجھے دوسرے سوال کی طرف لے گیا اور میرے دل کے کئی بند دروازے کھلنے لگے۔
رہے کا راوی و نیل و فراط میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لئے
اپنی ذات کے نہاں گوشوں تک رسائی پاتے ہوئے میں نے درگزر کرنا سیکھا۔ معافی سے روح کے زخموں پر مرحم لگائے جس سے دوسروں کے غلط ارادوں کے اثرات کو ہیچ کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ نیز بچپن کی ان نصیحتوں کو الوداع بھی کہنا پڑا جوابھی بھی ہمراہ تو تھے لیکن میرے کسی کام کے نہیں تھے۔
ہر روز اپنی الحمد للہ ڈائڑی میں اپنی نعمتوں کا شکر منانے لگی۔ خدائے کریم نے خود فرمایا کہ اگر تم شکر گزار بنوگے تو میں تم کو بڑھاؤں گا۔ رسولِ پاکؐ نے فرمایا کہ جو دوسروں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر ادا نہیں کرتا۔ اس حدیثِ مبارک کی پیروی کرتے ہوئے میں نے احساسِ استحسان کو گلے لگایا۔ میں نے پایا کہ اس اوزار سے غلط ارادے رکھنے والے لوگ خود بخود زندگی سے دور ہوجاتے ہیں۔ اس طرح میں نے آگے جانے کے لئے اپنی راہ ہموار کی۔
میں نے پرانی سوچ اور پرانے طریقہ کار کو ترک کرکے نئی سوچ اپنائیں جن سے الگ نتائج سامنے آنے لگے۔ میں نے اپنی زبان اور اپنے اقوال پر خاص دھیان دیا۔ جو الفاظ حلق سے نکل کر زبان کے ذریعے کانوں کے پردوں سے ٹکراتے ہیں سیدھے لاشعور پر اثر پذیر ہوتے ہیں۔ میں اب دانستہ طور پر مثبت اور پر اعتماد الفاظ منتخب کرتی ہوں۔ الفاظ میں ایسی طاقت ہے جو ہمیں یا تو پستی کی طرف دھکیلتے ہیں یا ہمارے لئے بلندی تک پہنچنے کا زینہ بنتے ہیں۔
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
میرے خودشناسی کا سفر مجھے پٹنہ لے گیا۔ بہار کے اردو اکادمی میں ایک کانفرنس کے دوران پٹنہ میں اردو کے لئے اس قدر ذوق وشوق نے مجھے اردو کو پوری طرح اپنانے میں مدد کی۔ پٹنہ میں میں سمجھ پائی کہ اردو ہماری ثقافتی وراثت ہے اور مجھے احساس ہوا کہ موریشس میں اس زبان کی ترقی و ترویج اور اس کو نئی بلندیوں تک لے جانا میری زندگی کا مقصد ہے۔
موریشس واپس آکر میں نے اپنا یوٹیوب چینل شروع کیا اور فیس بک پر لائیو ویڈیوز کے ذریعہ اردو زبان کو مقبولِ عام کرنے کی سعی میں لگ گئی۔ اپنے سفرمیں مجھے کچھ لوگوں کو خود سے علیحدہ بھی کرنا پڑا۔ کامیابی کے لئے پرسکون اور سازگار ماحول کی ضرورت ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ نکتہ چینی اور نوحہ گری کرنے والوں سے مجھے صرف تکلیف ہی پہنچ سکتی ہے۔ رسولِ خداؐ کا کہنا ہے کہ ’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ پس تم میں سے ہر شخص دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔‘ اچھی صحبت اچھائی کی طرف لے جاتی ہے۔ ؂
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے
میرے خود شناشی کا سفر مجھے پھر ترکی لے گیا۔ قسطنطینیہ کی مقدس سرزمین نے روح کے تاریک گوشوں کو منور کیا اوربچپن کے کئی نفسیاتی اسرارخود بخود کھلنے لگے اور اسلامی وقار کا شاہد ہونا نصیب ہوا۔
ہم نشین! مسلم ہوں میں توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہدِ عادل ہوں میں
اپنے خود شناسی کے سفر میں میں نے اپنے حق کے لئے لڑنا سیکھا اور غلط چیزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا سیکھا۔ میں نے اپنا ساتھ نہ چھوڑنے کا وعدہ کیا اور اپنی طاقت پر یقین کرنا سیکھا اور اپنے قوتِ ارادی کومزید مستحکم بنایا۔ صداقت اور خود اعتمادی میرے اوزار بن گئے۔ میں نے جانا کہ خود سے پیار کرنے میں اور خود کو اپنانے سے زندگی بدلتی ہے۔
رفعت میں مقاصد کو ہم دوشِ ثریا کر
خوداریِ ساحل دے آزادیِ دریا دے
میرے خدا سے میرا رشتہ اب خوف سے خوداعتمادی اور محبت میں تحلیل ہوگیا۔ میں نے پایا کہ میں اس خدا کی محبت کی مستحق ہوں اور وہ جو بھی فیصلہ لیتا ہے میرے حق میں ہوتاہے۔ میں نے اپنے خوف اس کے حوالے کرنا سیکھا اور اس پر توکل رکھ کر انجانی راہوں پر چلنے کی ہمت جٹائی۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
میری محنت رنگ لائی اور دسمبر ۲۰۱۸ء ؁ کومجھے پرامسنگ انڈین افریقن ایوارڈ اور وومن آف دی ائیر ایوارڈ سے نوازا گیا جس سے میرا شمار موریشس کی سو بہتریں خواتین میں ہوا ۔ اردو کے لئے پہلی بار کسی کو یہ اعزاز نصیب ہوا ہے اورمجھے ثبوت مل گیا کہ میں صحیح جانب قدم بڑھا رہی ہوں۔
سب کچھ خود سے شروع ہوتا ہے اور خود پر ختم ہوتا ہے۔ ہماری باہر کی دینا اور اس سے رونما ہونے والا تجربہ محض ہماری اندرونی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں