
انسان جب بھی کسی کی مدد کی کوشش کرتا ہے اسے اس سے صلہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ صرف اورصرف اللہ کی خوشنودی کو مقصد بنانا چاہیے۔ہمارے ایک بہت ہی نیک ملنے والے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ جب آپ کسی سے احسان کریں اور وہ آپ کے ساتھ برائی کرے تو سمجھیں کہ آپ کی نیکی قبول ہو گئی۔
خیر بچے گھر چلے گئے اور میں بھی گھر کی جانب روانہ ہوئی تو پورا شہر ایک ویران قصبہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔دوکانیں اور بازار بند تھے۔جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔اصل میں جس اصلحہ کے ڈپو میں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ شہری آبادی کے پاس ہی تھا۔یہاں پہ اسٹور کیا جانے والا اصلحہ افغان روس جنگ میں اور ملک کے دیگر فوجی اڈوں کو سپلائی کیا جاتا تھا۔کسی قسم کے حقائق کو چھپانے کے لیے یہاں عارضی طور پر آگ لگا دی گئی تھی۔یہ آگ غیر متوقع طور پر پھیل گئی۔جتنی دیر تک آگ پر قابو پایا گیا ہزاروں شہریوں کی جانیں چلی گئیں اور کئی زخمی ہو گئے۔یہ آگ کے شعلے کئی ہفتوں تک جلتے رہے۔اصلحہ کا یہ ڈپو فوج کے کنٹرول میں تھا۔جب یہ تعمیر کیا گیا تھا۔اس وقت یہ ایک ویران علاقہ تھا۔لیکن بعد ازاں بغیر ٹھوس منصوبہ کے بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی خطرے کے نشان کو کراس کرتی ہوئی اصلحہ ڈپو کے پاس جا پہنچی۔یہاں پر موجود اصلحہ میں سے فیوزنکالے ہوئے تھے۔جس کی وجہ سے یہ اصلحہ پھٹا تو نہیں مگر آگ کے شعلوں کی حدت سے کئی کئی میل کے فاصلے تک اڑ کر گیا۔کہیں کسی گھر میں گرا۔کہیں کسی دھواں اڑاتی گاڑی کے پیچھے پیوست ہوا تو کہیں کسی شہری پہ جا گرا۔یہ سیاستدانوں کی اور کسی حد تک عسکری قیادت کی بھی ذمہ داری تھی کہ یا تو اسے کہیں دور منتقل کیا جاتا یا پھر شہری آبادی کو اس سمت میں نہ بڑھنے دیا جاتا۔یہ ایک ایسی بڑی غلطی ہے جسے قسمت کا حوالہ دے کر دامن نہیں بچایا جا سکتا۔اس اقعہ کے ذمہ دار وہ تمام اہل اختیار ہیں جو کہ شہری آبادیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔بہر حال یہ ایک اتنا بڑا قومی حادثہ تھا جس میں مالی و جانی اور معاشی ہر طرح کا نقصان ہوا۔مگر ہماری حکومتوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔اگر سیکھا ہوتا تو اس کے بعد پھر دہشت گردی کے واقعات نہ ہوتے۔لیکن اس کے بعد ان واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جب کہ فوج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا اسے بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچانا اور ملک و قوم کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔پاکستانی فوج کا شمار بلا شک و شبہ دنیا کی بہترین اور بہادر افواج میں ہوتا ہے۔جس پاکستانی کو اس بات میں شک ہے اس کے محب الوطن ہونے میں بھی شک ہے۔صرف چند گنتی کے فوجیوں کی سرکشی کا الزام پوری فوج کو نہیں دیا جا سکتا۔پاکستانی عسکری طاقت نہ صرف وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ اس کرہء ارض پر جہاں بھی اس کی ضرورت ہو یہ وہاں مدد کو پہنچتی ہے۔چاہے یہ افریقی ممالک ہوں یا پھر ارض مقدس پہ خانہ کعبہ جیسے مقام مقدس کی حرمت کا معاملہ ہو۔پاکستانی فوج کہیں بھی مظلوم و ضرورتمند اقوام کی مدد کے لیے ہمہ تن گوش رہتی ہے۔پاکستانی عسکری طاقت کے کارنامے دنیا میں کہیں بھی موجود پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے کافی ہیں۔معاملہ خواہ جنگ کا ہو قدرتی آفات کا یہ ملکی سا لمیت کی حفاظت کا فوج ہر معاملے میںآگے ہے ۔ اس لیے کہ پاکستانی فوج میں ڈسپلن عروج پہ ہے۔ڈسپلن کی پابندی ایسی صفت ہے جو اگر قوم میں اور اداروں میں ہو تو اسے کامیابی کے عروج پہ پہنچا دیتی ہے۔اگر معاشرے خاندان اور افراد میں ہو تو انکی زندگی کو کامیاب بناتی ہے۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈسپلن ہے کیا؟ آسان اور مختصر الفاظ میں ڈسپلن قوانین اور وقت کی پابندی کا نام ہے۔آپ اپنے آپ کو چیک کریں کہ کیا آپ کی زندگی میں ڈسپلن ہے ؟سیاچن گلیشئیر اور بنگال میں ہونے والی شکست کی ذمہ دار فوج نہیں نا عاقبت اندیش سیاستدان ہیں ورنہ ان دونوں مواقع پر فوج از خود یا صرف جرنیلی حکم کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔اس کے پیچھے دوسرے عوامل کارفرماء تھے۔اسی طرح اوجڑی کیمپ کے حادثہ کی ذمہ داری ڈائیریکٹ عسکری قیادت پہ نہیں ڈالی جا سکتی اس کے پیچھے بھی دوسرے عوامل کارفرماء تھے۔
آج دس اپریل کو جبکہ میں یہ واقعہ رقم کر رہی ہوں دو دہائیوں سے ذیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے،لیکن یہ ہر برس ٹھیک دس اپریل کو کسی فلم کی طرح میرے ذہن کے پردوں پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔گو کہ یہ ایک بہت خوفناک واقعہ تھا مگر اس میں بھی بہت سے اسباق زندگی پنہاں ہیں۔میں نے تو اسے یہ سبق سیکھا کہ ہر مسلمان لڑکے لڑکی کو اپنے زمانہ طالبعلمی میں یا بعد میں عسکری تربیت حاصل کرنی چاہیے۔کیونکہ مجھ میں یہ قوت اس لیے آئی تھی کہ میں نے ایف ایس سی میں دو سال کی فوجی ٹریننگ لی تھی اپنے کالج میں۔ اس وقت تو صبح سویرے اٹھ کر فوجی لباس میں کالج جانا بہت مشکل لگتا تھا۔پھر سخت سردی میں فوجی مشقیں کرنا خاصا تھکا دینے والاکام تھا۔شروع میں تو یہ سب بہت مشکل لگا لیکن بعد میں محسوس ہوا کہ یہ ایک دو گھنٹے کی مشق دن بھر چاک و چوبند رکھتی۔ٹریننگ کے اختتام پر ہم لوگوں نے تئیس مارچ کے موقع پر خواتین کی پریڈ اور نشانہ بازی کی مشق میں بھی حصہ لیا۔جو کہ اصل میں ایک طرح کا امتحان تھا۔نشانے بازی میں میرے پچیس میں سے چوبیس نمبر تھے۔صرف ایک نشانہ مرکز کے دوسرے دائرے میں لگا تھا۔اگر اس قسم کی ٹریننگ ہر پاکستانی یا اکثریت لے تو وہ نہ صرف مشکل حالات میں اپنا بلکہ دوسروں کا بھی تحفظ کر سکتا ہے۔ایسے کورسز عسکری اور پولیس اور سیکورٹی کے اداروں کو تمام تعلیمی اداروں میں منظم طریقوں سے کرانے چاہیءں۔اس کے ساتھ ساتھ اسلامی بنیادی عقائد بھی راسخ ہونے چاہیءں۔
ایک مسلمان اور محب الوطن پاکستانی کی حیثیت سے آپ پر بھی ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ یہ تجاویز دیں کہ ہم اپنے پاکستانی معاشرے کے لیے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی رہائش پذیر ہیں وہاں کے معاشروں کو کیسے امن اور اور سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں؟ جی ہاں میں اور آپ ہم سب مل کر !!!!
Recent Comments