چوروں‌سے نجات کا شرطیہ طریقہ

May be an image of 1 person and text
انتخاب
سلطان محمود غزنوی
آج وطن عزیز کے ہر شعبہ میں‌ہر سمت میں‌ ہر رنگ و نسل کے چوہے اور چور پائے جاتے ہیں. آج کے دور میں‌جس طرح‌ان دونوں‌ کی افزائش نسل ہو رہی ہے اس کی مثال تاریخ‌میں‌نہیں‌ملتی.اگر تاریخی شہرت یافتہ اور بدنام زمانہ ڈکیت اور بدمعاش اس دور میں زندہ ہو جائیں تو وہ بھی اس نئے زمانے کے فراڈیوں اور چوروں‌کو دیکھ کر نہ صرف شرما جائیں‌بلکہ گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوں‌اور مارے ڈر کے اپنی کمین گاہوں‌میں‌جا چھپیں.ہمارے پیارے وطن میں‌شعبہ خواہ تعلیم کا ہو،تجارت کا ہوطب کا ہو،یا پھر کسی بھی قسم کی سیکورٹی کا آپ کو ہر آفس میں‌ہر دوکان میں‌ہر دفتر اور مکان میں‌ایک سے ایک بڑھ کر نوسر باز فراڈیے ڈکیت انتہائی مہذب رکھ رکھائو کے ساتھ ملیں‌گے.ہمارے بیچارے حکمرانوں‌نے ان ظالموں‌کی سرکوبی کی بہت کوششیں‌کیں‌ مگر ان کی ایک نہ چلی. اب چلتی بھی کیسے آپ ہی بتائیں‌کہ ہم بتلائیں‌کیا. جس بیچارے بندے کی نو دس بیویاں‌آن دی ریکارڈ‌ہوں‌دس بارہ سہیلیاں‌آف دی ریکارڈ‌ہوں‌وہ بیچارہ انہیں‌سنبھالے،یا پھر حکومت کو سنبھالے.لوگوں سے تو ایک بیگم نہیں‌سنبھالی جاتی مگر جن لوگوں‌کے نازک کندھوں‌پہ اس قدر بھاری ذًمہ داریاں‌ہوں، انہیں‌مورد الزم ٹھہرانا بالکل جائز نہیں.بلکہ یہ لوگ دراصل خود مدد کے مستحق ہیں یہ کسی کی کیا مدد کریں گے.اس لیے ان پہ نقطہ چینی کے بجائے انکا بوجھ بانٹنا چاہیے.صاحب اختیار ارباب اختیار کو چاہیے کہ یا تو ان کی بیگمات کی ذمہ داری ان کے کاندھوں‌سے ہٹا دیں‌یا پھر انکی حکومت کی اس میں‌سے ایک کام تو کرنا ہو گا.ورنہ پھر تھوڑی سی زحمت کر کے امیر تیمور کی ترکیب استعمال کر لیں‌امید ہے افاقہ ضرور ہو گا.
امیر تیمور آج سے ساڑھے سات سو سال قبل گڈ گورننس کے اصول بتاتے ہوئے اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں ” میں نے چوری کی روک تھام کے لئے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے جو آنے والے حکمرانوں کے لئے سبق بن سکتا ہے وہ یہ کہ جہان کہیں چوری کی واردات ہو تو میں اس علاقے کا داروغہ یا کوتوال کے ہاتھ کٹوا دیتا ہوں ، مجھے یقین ہے کہ جب تک کوئی داروغہ چور کا ہمدرد نہ ہو یا اپنے کام میں غفلت نہ کرے تو اس وقت تک چوری نہیں ہوسکتی ۔
میں نے گداگری کا خاتمہ اس طرح کیا کہ سارے مستحق فقیروں کے لئے سرکاری وظیفہ مقرر کیا ، مستحق فقیر وہ ہیں جو اعضائے بدن کے ناقص ہونے ہا اندھا ہونے کے باعث کام نہیں کرسکتے ۔ میں جانتا تھا جس شخص کو گدائی کی لت پڑ جائے وہ سرکاری وظیفے پر قناعت نہیں کرسکتا اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آ سکتا اس لئے میں نے وظیفہ حاصل کرنے والے بھکاریوں کو خبردار کر رکھا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ بھیک مانگتے دیکھا تو کسی عذر کے بغیر ان کی گردن اڑا دی جائے گی ۔
آج میری حکمرانی کے پورے علاقے میں آل محمد ص یعنی اولاد رسول میں سے کوئی ایسا نہیں پاؤگے جو معاشی بدحالی کا شکار ہو ، میں نے خمس کے حصے سے جو دراصل رسول و آل رسول کا حصہ ہے تمام مستحق سادات خاندانوں کے لئے وظیفہ مقرر کیا ۔ میرے ملک میں کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا نہ کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی سرکاری کارندہ ، کوتوال یا داروغہ کسی رعایا کے گھر میں گھس جائے اور گزشتہ دور کی طرح اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز رشوت کے طور پر طلب کرے تو میں اس کا سر گردن پہ رہنے نہیں دیتا میں اپنے بیٹوں کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ میرے بعد مسند شاہی پہ بیٹھو تو چوروں ، ڈاکوؤں ، رہزنوں ، اور مجرموں کے ہمدرد سرکاری کارندوں اور غیر مستحق بھکاریوں پہ کبھی رحم نہ کرنا ، خاندان رسالت کا احترام کرنا ، علما ، دانشور ، شعرا اور صنعت کاروں کی حمایت کرنا ، عورتوں اور شراب سے دور رہنا یہ دونوں ام الفساڈ ہے ۔”
(تیمور کی بائیو گرافی ” میں ہوں تیمور ” سے اقتباس )

اپنا تبصرہ لکھیں