تحریر شازیہ عندلیب
گذشتہ دنوں ناروے میں مختلف مساجد کی انتظامیہ نے مسجدوں کو محفوظ بنانے کے لیے مقامی حکومت سے احتجاج کیا اور کچھ مطالبات سامنے رکھے گئے۔یہ احتجاج بیرم کی النور مسجد میں اکیس سالہ شخص کے حملے کے بعد جمعہ کے روز بیرم اور ٹرونڈھائم مساجد میں کیا گیا۔بیرم کی النور مسجد میں حملہ کو وہاں موجود ایک پچھتر سالہ نمازی کو گولی لگی جبکہ ایک اور پینسٹھ سالہ نمازی حملہ آور کو قابو ہونے میں کامیاب ہو گئے۔جبکہ اخباری رپورٹ کے مطابق پولیس جائے وقوعہ پہ بیس منٹ کے بعد پہنچی۔اس واقعہ کو تمام مقامی نارویجن اخباروں میں شائع کیا گیا جبکہ نارویجن سیاستدانوں اور دیگر ارباب اختیار نے حملہ آور کو روکنے اور کنٹرول کرنے پر دونوں معمر نمازیوں کی حوصلہ افزائی کی اور اسے دہشت گردی کے خلاف جدو جہد قراردیا۔مسجد النور کے امام مسجد اور انتظامیہ نے حکومت سے مساجد کو اس طرح سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جس طرح حکومت نے یہودیوں کی عبات گاہوں کو ایک حملہ کے بعد فراہم کی تھی۔لیکن حکومت کی جانب سے اس مطالبہ کا کوئی تسلی بخش نوٹس نہیں لیا گیا۔جس کے بعد گذشتہ جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد بیرم اور ٹرونڈھائم کی مساجد میں احتجاجی مظاہرے اور مطالبہ کے بعد حکومت نے اس مطالبہ کا نوٹس لیتے ہوئے اس مسلہء کو اسمبلی میں حل کرنے کی تجویز دے دی۔
اس سلسلے میں النور مسجد نے حکومت سے مساجد کو سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ ٹرونڈھائم مسجد کی انتظامیہ کے سربراہ نے یہ تجویز پیش کی کہ حکومت مساجد کو محفوظ بنانے کے لیے اس کے عملے کو سیکورٹی کی عملی تربیت دے۔ان کی یہ تجویز واقعی بہت موثر اورقابل عمل ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن اس حملے اور احتجاجی مظاہرے کے بعد کئی سوال اٹھ رہے ہیں جنکے جوابات تلاش کرنا ہر محب وطن اور ذمہ دار نارویجن مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
ناروے میں تمام مساجد اور فلاحی اداروں کو حکومتی ادارے اور تنظیمیں اخراجات اور فنڈز مہیاء کرتی ہیں۔جو ادارے اچھی کارکردگی اور درست حسابات فراہم کرتے ہیں انکے اخراجات حکومت اٹھاتی ہے جبکہ درست کارکردگی نہ دکھانے والے اور حسابات میں گھپلہ کرنے والی تنظیموں کو مزید مالی امداد فراہم نہیں کی جاتی۔یہ کام نہائیت منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔تاہم اصل مسلہء یہ ہے کہ کیا ناروے میں موجود صرف دو ہی مساجد کو تحفظ درکار ہے؟اصل میں تمام مساجد کو اپنی سیکورٹی کے لیے مل کر ایک لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔یہ احتجاج یا مطالبہ صرف دو مساجد کو نہیں بلکہ سب کو مل کر کرنا خواہ انکا تعلق کسی بھی مسلک یا ملک سے ہو۔اس سلسلے میں وہ ادارے یا مساجد جو سب سے ذیادہ پرانی اور مستحکم ہیں انکی انتظامیہ کو انہیں آگے بڑھنا چاہیے اور آپس کے صلاح مشورے سے مل کر تجاویز اورسفارشات مرتب کرنی چاہیں یہ کام وہ افراد کر سکتے ہیں جوپہلے سے فلاحی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اس لیے کہ یہ فلاحی ادارے اور مساجد بھی نارویجن معاشرے کا ایک حصہ ہیں اور یہ اپنے اپنے ممبران کی تربیت اپنے ضابطہء حیات کے مطابق کرتے ہیں۔اگر ان میں عدم تحفظ ہو گا ملک میں نسلی منافرت پھیلے گی یہ ادارے اپنے فرائض ٹھیک سے سرانجام نہیں دے سکیں گے۔اس لیے یہ تمام ادارے اپنے اپنے سربراہوں سے مل کر پر امن اور منظم طریقے سے اپنے اپنے ہوم پیج پر اور ممبران کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ صرف مسلمان ہی کیوں نارویجن معاشرہ تو سب کا ہے۔عبادت گاہوں اور مساجد کو پرامن بنانے کے لیے تو تجاویز غیر مسلم اور نارویجن بھی دے سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہر شخص اپنے نارویجن ساتھیوں اور خیر خواہوں سے تجاویز اور ٹپس لے سکتے ہیں۔
مقامی اخبارات میں بتجاویز بھیج سکتے ہیں۔جبکہ اس مقصدکے لیے اردو فلک کے صفحات فیس بک پیج جبکہ انگلش اور نارویجن کے لیے اردو فلک ڈاٹ نیٹ پر موجود ٹپس اینڈ ٹاپس کا صفحہ بھی حاضر ہے۔ ہر امن کا خواہاں فرد خواہ اسکا تعلق کسی بھی فرقے یا ملک سے ہو بلا تفریق رنگ و نسل وہ یہاں اپنی تجاویز بھیج سکتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔