ناروے میں بچوں کا تحفظ اور تارکین وطن

تحریر: اطہر علی ، لیڈر نارویجئن امیگرنٹ فورم

ناروے کے نگہداشتی ادارے برائے بچگان اور اقلیتوں کے درمیان تعلقات میں ہمیشہ شبہات کے بادل چھائے رہے ہیں۔ اس معاملہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں فوری طور پر موثر اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ تارکین وطن والدین بچوں کے نگہداشتی و تحفظاتی ادارے BARNEVERNET کے درمیان بداعتمادی ختم ہو اور جن بچوں اور اہل خاندان کو اس ادارے کی امداد کی ضرورت ہے، وہ انہیں حاصل ہو سکے۔

بچوں کے تحفظاتی ادارے اور اقلیتوں سے متعلق والدین کے درمیان پیدا ہونا والا اختلاف اور تنازعہ نیا نہیں ہے۔ یہ مسائل کئی برس سے موجود رہے ہیں۔ تارکین وطن کی طرف سے متعلقہ حکام، سیاستدانوں اور اس ادارے کو ان تفکرات کے بارے میں آگاہ کیا جاتا رہا ہے جو تارکین وطن والدین کو لاحق ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔

10 برس قبل میں نے خود اس سلسلہ میں اوسلو سٹی کونسل میں 9 مختلف تجاویز پیش کی تھیں۔ تا کہ تارکین وطن کے حوالے سے بچوں کے نگہداشتی ادارے کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ افسوس کی بات ہے کہ سٹی کونسل میں ان سب تجاویز کو مسترد کر دیا گیا۔ نارویجئن امیگرنٹ فورم کی جانب سے بھی یہ معاملہ متعدد بار اٹھایا گیا ہے۔

ناروے میں مقیم تمام شہریوں پر بچوں کے حفاظتی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لئے بچوں کے تحفظاتی ادارے کو قانون کی رو سے بچوں کے بہترین مفاد میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی بے حد اہم ہے کہ بچوں کے تحفظاتی ادارے اور دیگر معاون اداروں کو دوسری زبانیں بولنے والے بچوں کے بارے میں مناسب صلاحیت حاصل ہو۔ اس سلسلہ میں خاص طور سے ان کی پرورش کے طریقہ کار ، خصوصی ضروریات ، ثقافتی تفاوت اور ترجیحات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس قسم کی صلاحیت بچوں کے معاملات پر فیصلہ کرتے ہوئے بے حد مفید اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اس صلاحیت اور معلومات کی قدر و قیمت ان معاملات میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے جہاں پر تحفظاتی ادارے کو بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری خود قبول کرنے کا فیصلہ کرنا پڑے۔

بعض معاملات میں اس ادارے کے اقدامات سے بچوں اور والدین کو بے حد فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی تجربات کی روشنی میں سامنے آئی ہے کہ بچوں کے تحفظاتی ادارے کو اقلیتی خاندانوں کے بارے میں مکمل اور قابل اعتبار معلومات حاصل نہیں ہوئیں۔ اس طرح اسی ادارے کی طرف سے ہونے والے فیصلوں سے بچوں کے مفاد کے تحفظ کا مقصد پوری طرح حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ فیصلے اس کے برعکس نتائج مرتب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں یا تو تحفظاتی ادارہ کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرتا یا اس کا اقدام اوور ری ایکشن OVER REACTION قرار دیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ثقافتی پہلو کو مختلف معاملات میں مختلف طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ 80ء کی دہائی میں ثقافت کو بچوں کے معاملات میں بے حد اہمیت دی جاتی تھی تاہم اب ثقافتی تعلق کو بچوں کے معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت تقریباً نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ عام طور سے بچوں کا تحفظاتی ادارہ ایک نارویجئن آئیڈیل خاندان کے معیار کے مطابق صورت حال کا جائزہ لیتا ہے اور اسی کو حقیقی بنیاد مان لیا گیا ہے۔ اس لئے اگر کوئی تارک وطن خاندان نارویجئن خاندان کے معیار کے مطابق پورا نہ اترتا ہو تو یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ بچوں کی نگہداشت میں غفلت برتی جا رہی ہے۔

ناروے میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کام میں جو اصول وضع کئے گئے ہیں وہ عام طور سے مغربی اقدار کی بنیاد پر استوار ہیں۔ ان میں مختلف ثقافتی اقدار کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تارکین وطن بچوں کے مسائل کی نوعیت خصوصی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تارکین وطن خاندانوں کے بچوں کے حوالے سے ایسی تفہیم عام کرنے کی ضرورت ہے جو ان ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کی بہتری کے لئے فیصلہ کرنے میں معاون ہو۔

عام طور سے ماہرین نفسیات اور دیگر لوگ انفرادی معاملات میں تفہیم کے نقطہ نظر سے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ تاہم یہ طریقہ کار اس وقت تو کارآمد ہے جب ہم ایک ہی ثقافتی پس منظر کے لوگوں کی بات کر رہے ہوں۔ لیکن کثیر الثقافتی معاشرے میں ان کرداروں کے رول کو ثقافتی حوالے سے دیکھا جانا ضروری ہے۔ بچوں کی پرورش کا ایک ثقافتی اور تاریخی پس منظر بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اگر تارکین وطن بچوں کو محض مغربی اقدار کے حوالے سے جانچا جاتا رہے گا تو مجھے اندیشہ ہے کہ اس طرح مزید غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ تارکین وطن خاندان بچوں کے حقوق اور ضروریات کو اہمیت دیں اور بچوں کے نگہداشتی ادارے سے بچوں کی مدد کے نقطہ نظر سے امداد حاصل کریں۔

نارویجئن امیگرنٹ فورم نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت ہم بچوں کے نگہداشتی ادارے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تارکین وطن خاندانوں اور BARNEVERNET کے درمیان رابطہ استوار کروایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں باہمی ڈائیلاگ کا راستہ ہموار ہو تا کہ اس تحفظاتی ادارے اور ضرورت مند خاندانوں کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہو۔ اس سلسلہ میں ایک اجلاس منعقد ہو چکا ہے تاہم اس موضوع پر کئی اجلاس منعقد ہوں گے۔

ادارتی نوٹ: نارویجئن امیگرنٹ فورم کے سربراہ اطہر علی کا یہ مضمون نارویجئن زبان میں تھا۔ اس کا ترجمہ کاروان نے کیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں