محمد عبد الحمید
پنجاب میں1987 کے اواخر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے۔ (ہونے نہیں تھے کیونکہ مسلم لیگ کے بیشتر لیڈر اس کے خلاف تھے لیکن نواز شریف
کسی نہ کسی طرح قائل کر لیا گیا۔) نتائج کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلا کہ 20، 25 فی صد ووٹ پیپلز پارٹی کے حامیوں کو ملے۔ چنانچہ وزیر اعظم محمد خاں جونیجو کو مشورہ دیا گیا کہ فوری طور پر عام انتخابات کرا دیں۔ مسلم لیگ آسانی سے جیت جائے گی۔ اس طرح منتخب ہونے کے بعد ان کا یہ دھبہ دھل جائے گا کہ وہ نامزد وزیر اعظم ہیں۔ جونیجو ہمت نہ کر سکے اور مئی 1988 میں برطرفی کا داغ لے کر گھر چلے گئے۔ بعد میں کہتے رہے کہ مجھے انتخابات کرانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
جونیجو نے وہی کیا جو ہمارے تمام وزیر اعظم کرتے رہے ہیں۔ کسی نے بھی کبھی بھی انتخابات نہ کرائے، بر وقت اور منصفانہ کرانے کا سوال تو بعد کا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے فورا بعد عوام سے نیا مینڈیٹ لینا چاہیئے تھا لیکن ہمت نہ کر سکے۔ نیا آئین منظور ہونے کے بعد بھی انتخابات کرانا بنتا تھا لیکن نہیں کرائے۔ اگر 1977 میں تحریک چلنے کے فورا بعد دوبارہ انتخابات کرا دیتے تو دو تہائی نہ سہی سادہ اکثریت پھر بھی مل جاتی اور مارشل لا کی نوبت نہ آتی۔
اگر ماضی میں جائیں تو آزادی کے بعد نو سال تک سیاست کاروں نے آئین اس لیئے نہ بنایا کہ اس کے بعد انتخابات کرانے پڑیں گے۔ (ورنہ کام صرف اتنا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں کچھ ترامیم کر کے منظور کر لیتے، جیسا کہ 1956 میں آخر کار کیا۔ آئین منظور کر لینے کے بعد بھی دو سال تک انتخابات ٹالتے رہے۔ سردیوں میں بہانہ ہوتا کہ پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور گرمیوں میں کہتے کہ سیلاب رکاوٹ بنتے ہیں۔ پھر صدر سکندر مرزا نے آئین منسوخ کر کے مارشل لا لگا دیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت کا جھنڈہ لہرانے والے انتخابات سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں اور جنھیں فوجی آمر کہا جاتا ہے وہی انتخابات کراتے رہے ہیں۔ ہر جرنیل نے انتخابات کرائے، گو منتخب ہونے والوں نے اسی پر نکتہ چینی کر کے احسان فراموشی کی۔ اگر پرویز مشرف عدالت عظمی کا تین سال بعد انتخابات کرانے کا حکم نہ مانتے تو وہ آج بھی حکومت کر رہے ہوتے اور پچھلے چھ سال میں اقتدار میں آ کر ملک کو تباہی سے دوچار کرنے والے سیاست کار انتخابات کے لیئے ان کی منتیں ہی کر رہے ہوتے۔ مشرف نے کبھی نہ سوچا ہوگا کہ جمہوریت پسند بننے کا نتیجہ یہ ہوگا۔
نواز شریف کے سوا سب جانتے ہیں کہ ان کی حکومت دنوں کی مہمان ہے۔ اگر انھیں بھی کسی طرح اس کا احساس ہو جائے تو ان کے لیئے با عزت رستہ یہ ہوگا کہ خود ہی استعفا دے دیں اور شہباز شریف کو یہی کرنے کے لیئے کہیں۔ اس طرح وہ کہہ سکیں گے کہ وہ جمہوریت پسندی کا صرف دعوی نہیں کرتے بلکہ اس کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔ نئے ظاہر ہے انتخابات میں انھیں سیٹیں بہت کم ملیں گی لیکن انھیں تمام سیاست کاروں پر اخلاقی برتری مل جائے گی۔ وہ فخر سے کہہ سکیں گے کہ وہ پیپلز پارٹی کی طرح مدت کے آخری دن تک اقتدار سے نہیں چمٹے رہے۔ جب سمجھا کہ عوام سے پھر مینڈیٹ لینے کی ضرورت ہے تو ان کے سامنے چلے گئے۔ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کسی وقت بھی عوام کے پاس جا سکتا ہے۔
لیکن کیا میاں صاحب اتنا بڑا قدم اٹھائیں گے؟ ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ہے۔ اول تو خاندان اور حواری روک دیں گے کہ مال بنانے کی ہماری ہوس ابھی پوری نہیں ہوئی۔ (اور شائد اگلے چار سال میں بھی نہ ہو۔) دوسرے، انھیں ہرگز توقع نہیں کہ اگلی بار بھی اسی طرح دھاندلہ کر کے حکومت بنا سکیں گے۔ تیسرے، حکومت کرنے کا نشہ بھی کوئی چیز ہے، جو الیکشن کرانے سے ہرن ہو جاتا ہے۔
لگتا ہے میاں صاحب خود استعفا دینے کی بجائے 15 سال پرانی تاریخ دہرانے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اس بار رہنے کے لیئے جدہ میں کوئی محل نہیں ملے گا۔ جو ملیگا وہ وہی ہوگا جس سے گھبرا کر وہ جدہ گئے تھے۔ ہمارے سیاست کاروں کو وقار اور عزت نفس راس نہیں آتی۔