کالم نگار ، مسرت افتخار حسین
اوسلو
دس دسمبر کو ہر سال اوسلو میں نوبل پرائز برائے امن دینے کی ایک پر شکوہ تقریب کا انعقاد کیا جاتاہے۔ا اس تقریب کی اہمیت اور شان یہ بھی ہوتی ہے کہ ناروے کے یوم آزادی سترہ مئی کے بعد یہ سال کی وہ اہم تقریب ہوتی ہے جس میں شاہی خاندان بادشاہ اور ملکہ خصوصی طور پر شریک ہوتے ہیں۔اور جیسے ہی نوبل لپرائز حاصل کرنے والے پہنچ جاتے ہیں تو انکا اعلان بگل بجا کر کیاجاتا ہے۔اور یہی بگل اس وقت بھی بجایا جاتا ہے جب بادشاہ ہیرالڈا اور ملکہ سونیا کی آمد ہوتی ہے گویا عزت افزائی کا یہ اندازکسی اور عام انسان کے لیے نہیں ہوتا سوائے شاہی خاندان کے ۔یوں اس تقریب کی اہمیت اور انعام حاصل کرنے والوں کی ناروے عزت افزائی کرتا ہے اور کیوں نہ کرے امن کا نوبل پرائز دنیا میں عزت کا وہ نشان حیدر ہے جس کی تمنا اور خواہش دنیا میں سبھی کرتے ہیں اور یہ دنیا میں سبھی کے نزدیک وہ اعلیٰ اعزاز ہے جسے انسان پا کر سوچتا ہے کہ کیا اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہو سکتا ہے!!!!
اس سال کا نوبل پرائز شام میں کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے والے ادارے OPCW نے حاصل کیا۔انعام کے ساتھ اس ادارے کو بارہ لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی کثیر رقم بھی ادا کی گئی۔یہ نوبل پرائز ہر سال ڈائنامائٹ ایجاد کرنے والے الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق دیا جاتا ہے۔الفریڈ نوبل نے یہ وصیت چوبیس نومبر1895 کو پیرس میںکی اور ناروے کی امن پسند حکمت عملی اور پالیسی سے متاثر ہو کر نوبل انعام برائے امن کے لیے ناروے کو منتخب کیا۔چونکہ الفریڈ سویڈ ش تھا اس لیے ناروے کو امن نوبل پرائز کے لیے منتخب کرنے پر سویڈ ش لوگ آج تک اس کو قبول نہیں کر سکے۔اور جب سے ناروے کی امن کمیٹی نے امریکہ کے باراک اوبامہ اور ہنری کیسنجر کو نوبل پرائز دیے۔ اسے شدید نقطہ چینی کا نشانہ بنایا گیا۔ان لوگوں نے بے شک ماحولیات کے لیے کام کیے مگر امن کے لیے کچھ نہیں کیا۔اور امریکہ کے صدر اوباما کو امن پرائز دیا گیا تو ناروے تک میں اس پر تنقید کی گئی۔نوبل پرائز کمیٹی نے الفریڈ کی وصیت کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی پسند و نا پسند اورمفاد کوپیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا ہے۔اور امن کے بجائے سیاستدانوں کو نوازا گیا ہے۔ناروے کے مشہور تاریخ دان فریڈرک نے امن نوبل کمیٹی پر گذشتہ برس تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نوبل تاریخ داں ہونے کے ناطے سے مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ یہ وصیت ہمارے پاس ایک امانت ہے۔اور اگر ہم امانت کا صحیح حق ادا نہیں کر رہے اور صحیح حقداروں کو الفریڈ کی یہ امانت نہیں پہنچا رہے تو یہ امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔ کیونکہ سیاسی نوبل پرائز امن نوبل پرائز ہر گز نہیں بنتا۔گذشتہ برس سویڈن نے بھی امن نوبل کمیٹی پرتنقید کی اور رائے یہ دی کہ نوبل کمیٹی کو دوبارہ الفریڈ کی وصیت اور مقاصدپر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
Is it possible for Norway parliment to be loyal to nobel and can official Norway continues to select the trustees of a private swedish foundation in future to implement a piece visa that parliment is directly opposed to?
1978میں مصر کے صدر انور سادات اور پاکستان کے عبدل السلام نے امن کے نوبل ایوارڈ حاصل کیے۔جبکہ اب تک 118 نوبل پرائز میں سے پانچ خواتین کو نوبل پرائز حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ دنیا بھر میں ناروے میں ہونے والی اس سالانہ تقریب کا انتظارکیاجاتا ہے۔کہ اس سال کا نوبل پرائز کس کو یا جائے گا۔ پوری دنیا سے سینکڑوں لوگ اور ادارے اس پرائز کے لیے نامزد کیے جاتے ہیں۔ اور پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کا نام سب سے نمایاں تھا۔اور دنیا بھر سے اس کی حمائیت بھی ہوئی۔ماہ اکتوبر تک اکژیت اس بات کی امید رکھے ہوئے تھی کہ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی ہی سب سے اہم ہے اور اسے ہی ایوارڈ دیںلیکن جب امن نو بل پرائز کمیٹی کے صدر نے شام میں کیمیائی ہتھیار وں کو تلف کرنے والے ادارے OPEW کو انعام دینے کے لیے نامزد کیا تو خاص طور سے پاکستانیوں کو ملالہ کے نامزدنہ ہونے کی مایوسی بھی ہوئی۔
نوبل پرائز حاصل کرنے والے مسلمان ،خواتین سے بھی پیچھے ہیں۔دنیا کا پہلا نوبل انعام 1905 میں ملا جس کا نام برتھا ون تھا مگر یہ انعام ادب میںبرتھا کو اس کی وفات کے بعد ملا۔نوبل کمیٹی کی وجہء شہرت وہ اصول رہے ہیں جن کی بناء پر وہ دنیا میں ایک ایسا خود مختار ادارہ بن کر ابھرا جس کا مقصد ، استحقاق ،میرٹ، کام ،امن کا قیام،امن کے لیے جدو جہد،دنیا میں امن بانٹنا،قائم رکھنا،اور امن کے لیے جدو جہد کرنا ہے ۔دیکھا جائے تو یہ امن قائم رکھنا جہاد ہے یہ جہاد فرد واحد بھی ہو سکتا ہے اورکوئی تنظیم یا دارہ بھی ہو سکتا ہے جو امن کے قیام کے لیے جدو جہد کر رہا ہو۔حکومت ناروے نے دو ہزار پانچ میں ایک عظیم الشان امن سنٹر قائم کیا۔جس کا افتتاح گیارہ جون کو سویڈن کے بادشاہ اور ملکہ نے کیا۔اور دو ہزار پانچ کے اس وقت تک کے تمام حیات نوبل انعام یافتہ افرادکو سرکاری دعوت پر ناروے بلایا گیا۔اس سنٹر میں الفریڈ کی وصیت سے لے کر دنیا میں ہونے والی تمام جنگو ں،اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تمام تباہ کاریوں اور انسانی جانوں کے ضیاع سے آگاہ کیا جاتا ہے۔یہاں نوبل انعام کی شروع سے لے کر آخر تک کی تمام تقریبات پر مبنی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔یہ امن سنٹر ناروے میںآنے والے ہر سیاح کا خصوصی مرکز ہوتا ہے۔امن سنٹر کی ڈائیریکٹر ایک خاتون جرنلسٹ ہیں جن کا نام (Bente Eruksen) بنتے ایرکسن ہے۔