مغربی بھارت کے گاؤں ڈینگنمال میں خشک سالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پانی کا ایک بھی نلکا موجود نہیں ہے۔ ڈینگنمال میں پانی کی شدید قلت ہے اور گاؤں کے لوگوں کو پانی کے لیے بہت دور جانا پڑتا ہے۔ گاؤں والوں کا پانی تک رسائی کا واحد ذریعہ قریبی پہاڑوں میں موجود دو کنوئیں ہیں۔ ان کنوؤں پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور پانی لانے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔
ڈینگنمال گاؤں کے لوگ صرف پانی لانے کے لیے شادیاں کرتے ہیں۔ گاؤں کے ایک شخص سکہارم بھگت نے پانی کی قلت کے مسئلے سے نمٹننے کا حل ایک ایسی بیوی کی صورت میں نکالا، جس کا کام صرف پانی بھر کر لانا ہے۔ 66 سالہ بھگت کے مطابق اُس کی تین بیویاں ہیں، جن میں دو سے اُس نے صرف گھریلو کام کاج اور پانی لانے کے لیے شادی کی ہے۔ بھگت کے بقول ’’میری پہلی بیوی بچوں کے ساتھ مصروف ہوتی تھی۔ پھر میری دوسری بیوی بیمار ہو گئی اور پانی لانے کے قابل نہیں رہی تو پھر میں نے تیسری شادی کر لی۔
بھگت کے بقول ’’مجھے پانی لانے کے لیے کوئی چاہیے تھا اور اسی لیے میں نے دوبارہ شادی کی۔‘‘ بھگت اپنی تینوں بیویوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہے لیکن اِن کے کمرے الگ الگ ہیں۔ اُس کی پہلی بیوی کے مطابق وہ تینوں بہنوں کی طرح ہیں۔ ’’ کبھی کبھار ہمارے درمیان مسائل بھی ہوتے ہیں، جنہیں ہم خود ہی حل کر لیتے ہیں۔ صرف بھگت ہی نہیں ہے بلکہ گاؤں کے دیگر مردوں نے بھی صرف اسی مقصد کے لیے شادیاں کی ہوئی ہیں۔ ڈینگنمال کے زیادہ تر مرد کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور ان کی آمدنی بہت ہی کم ہے۔
بھگت اور اُس کے خاندان والے بھارت کے اُن لاکھوں شہریوں میں سے ہیں، جو صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔ اِس کے علاوہ ریاست مہاراشٹر کے کئی علاقے گزشتہ کئی برسوں سے خشک سالی کا بھی شکار ہے۔ بھارت کی تیسری بڑی ریاست مہاراشٹر کی حکومت کے مطابق ہر سال ریاست کے انیس ہزار شہریوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہوتی۔ حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس سال خشک سالی میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ مون سون کے دوران نسبتاً کم بارشوں کی امید ہے۔
گاؤں کے ایک شخص نے بتایا کہ پانی کے لیے شادی کرنا کئی برسوں سے ایک رواج بن گیا ہے۔ بھارت میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنا غیر قانونی ہے لیکن اس گاؤں میں یہ عام سی بات ہے۔