پاکستانی عوام کے نام
عارف محمود کسانہ
اس کی سیاست یا ذات سے چاہے اختلاف کریں لیکن بات اس نے درست کی ہے کہ’’ ہم سب اقتدار کے بھوکے ہیں اور اس کے حصول کی خاطر سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘‘۔اس حقیقت کا اعتراف شیخ رشید نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے سیاستدان حصول اقتدار کے لیے کسی اصول، ضابطے، اور نظریہ کے پابند نہیں۔ کسی مفکر نے بالکل درست کہا ہے کہ “ہم سیاست میں ہر طرح کا کام محض اقتدار میں آنے کے لیے کرتے ہیں اگر وہی کام اپنی ذاتی زندگی میں کریں تو بہت بڑے شیطان کہلائیں”۔ یہ اقتدار کا لالچ ہی ہوتا ہے جو انہیں جماعتیں بدلنے پر مجبور کرتا رہتا ہے اور ایسے سیاستدانوں میں شرم نام کی کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو انہیں کم از کم اتنا تو سوچنے پر مجبور کرے کہ جس جماعت کی اعلانیہ مخالفت کرتے رہے ہیں اب اسی جماعت کے گن گارہے ہیں۔ایسی جمہوریت کا نتیجہ میں ہمارے سامنے ہے جس سے خبردار کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
علامہ فرماتے ہیں کہ ایسی جمہوریت سے گریز کرو کیونکہ دو سو گدھے بھی جمع ہوجائیں تو ان میں ایک انسان کے برابر فکر پیدا نہیں ہوسکتی۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی جماعتیں خود جمہوری روح سے کوسوں دور ہیں۔ صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا نام جمہوریت نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مسلسل عمل اور ایک مربوط نظام کا نام ہے۔ ہمارے ہاں جو نظام رائج ہے یہ جمہوریت کے لبادے میں مورثی سیاست کا آمرانہ نظام ہے۔پاکستان میں موجودہ انتخابی مہم کودیکھ لیں، قومی سیاست کا کوئی وجود نہیں اور اراکین اسمبلی جن کا کام قانون سازی اور ملک کے لیے پالیسی مرتب کرنا ہوتا ہے وہ گلیاں، نالیاں، سڑکیں، کوڑا کرکٹ اور پینے کے پانی کے مسائل کو حل کرنے کے وعدے کررہے ہیں حالانکہ ان سب کا تعلق بلدیاتی سیاست سے ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مجرم ہیں کہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات کو نہ تسلسل سے کرایا اور نہ ہی انہیں اختیارات منتقل کیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قومی سطح کے راہنما بلدیاتی سیاست کررہے ہیں۔ کسی ایک بھی سیاسی جماعت نے یہ اعلان نہیں کیا کہ برسراقتدار آتے ہیں بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا اور انہیں تمام تر اختیارات منتقل کئے جائیں گے۔ عوام کے ستر فی صد مسائل کا تعلق بلدیاتی امور سے ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے وہ فوجی حکومتوں نے کرائے جبکہ جمہوری حکومتوں نے یہ حق سلب کیے رکھا۔بہرحال اس ساری صورت حال کے باوجود جب ہمارا پالا اس نام نہاد جمہوری نظام سے پڑ ہی گیا ہے تو ہمیں اس میں رہتے ہوئے بہتری اور فلاح کی جانب جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر پانچ سال بعد عوام کو ایک موقع ملتا ہے جب وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر خوب سوچ سمجھ کر اپنی تقدیر لکھنی چاہیے۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ اپنے مقدر میں بہتری لکھیں یا محرومیاں، فیصلہ ان کے و وٹ کی پرچی کرے گی۔ یہ امرخوش آئند ہے کہ اب عوام میں شعور بیدار ہو چکا ہے جس کے لیے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوام اپنے حکمرانوں اور عوامی نمائندوں سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال کررہے ہیں۔لوگ بے دھڑک ان کا محاسبہ کررہے ہیں اور عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نمائدوں سے سوال کریں کہ ان کی کارکردگی کیا رہی ہے۔ ووٹ مقدس ایک امانت اس وجہ سے ہے کہ امانت وہ چیز ہوتی ہے جو کسی کو بھروسے اور اعتماد پر دے دی جائے جسے قابل اعتماد سمجھا جائے۔ قرآن حکیم میں ہے، “اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت کو ان کے اہل کی طرف لوٹا دیا کرو” (سورہ نساء آیت 85)۔ مزید دو مقامات پر کہا کہ “اپنی امانت کی پاسداری کرنے والے مومن کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں‘‘۔ ووٹ دینا ایک طرح سے گواہی دینے کے مترادف ہے۔ سورہ نساء کی ہی آیت 135 میں ہے عدل کے ساتھ گواہی دو، خواہ وہ شہادت تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جائے یا تمہارے ماں باپ کے خلاف کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالی نے ظلم کرنے سے سختی سے منع کی ہے۔ ظلم کے بنیادی معنی ہیں کہ جس چیز کو جس مقام پر ہونا چاہیے، وہ اس جگہ پر نہ ہو۔ ظلم سے مراد ہر قسم کی نا انصافی، دھاندلی، استبداد، کسی کے حقوق ادا نہ کرنا، کسی کو اس کا حق نہ دینا اور زیادتی کرنا شامل ہے۔ اس اعتبار سے نااہل شخص اور عوام کا استحصال کرنے والی جماعت کو ووٹ دینا بھی ظلم ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ سب سے اچھے امیدوار اور اچھی کارکردگی کی حامل جماعت کو ووٹ دینا چاہیے۔ استحصالی نظام کا ساتھ دینا اور خاموش رہنا بھی ظلم ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ لوٹ کھسوٹ کے دور کو لپیٹ دیا جائے اور ایک ایسے دور کا آغاز کیا جائے جس میں عوام کو ان کی بنیادی ضروریات میسر ہوں اور انہیں عزت نفس حاصل ہو۔ دنیا میں ترقی یافتہ اقوام نے ووٹ کی طاقت سے اپنی قسمت بدلی ہے اور ہمیں بھی یہی کچھ کرنا چاہیے۔ چونکہ پارلیمانی جمہوریت میں امیدواروں کی بجائے جماعت زیادہ اہم ہوتی ہے اس لیے عوام کو اپنا ووٹ دیتے وقت ایسی جماعت کے نمائدوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو ملک کو بہتری کی جانب لے کر جاسکے اور اس کے قائد میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکے۔ 25 جولائی کو ووٹ دیتے وقت کسی قسم کے لالچ، دباؤ، خوف، تعصب، تعلق اور ذاتی مفاد کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اپنی شہادت صرف اہل امیدوار اور جماعت کے حق میں دیں۔ اس بار لوگوں میں شعور بیدار ہو چکا ہے اور امید ہے کہ سپیدہ سحر ضرور طلوع ہو گا بقول اقبال
دِلوں میں ولولہ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پِیر کی موت