پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم کو اردو میں پاکستان کا معیاری وقت بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت گھڑیاں جس نظام کے تحت چل رہی ہیں یہ 1951 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت ایک ریاضی دان پروفیسر محمود انور نے پاکستان کے درست وقت کا تعین کیا تھا۔ انہوں نے ریاضی کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کا وقت انڈیا کے ٹائم سے آدھا گھنٹہ پیچھے ہوگا۔ حکومت کی جانب سے 30 ستمبر 1951 کو پہلی بار پروفیسر محمود انور کے بتائے ہوئے وقت کو اپنانے کا اعلان کیا گیا اور یکم اکتوبر 1951 سے یہ رائج ہوگیا۔ اس سے قبل پاکستان میں برطانیہ کا متعارف کرایا گیا وقت نافذ تھا جو انہوں نے 1907 میں متحدہ ہندوستان پر نافذ کیا تھا ۔
پروفیسر محمود انور نے پاکستان کیلئے 2 ٹائم زون بنائے تھے، اس وقت متحدہ پاکستان تھا اس لیے انہوں نے مغربی پاکستان کیلئے کراچی سٹینڈرڈ ٹائم اور مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کیلئے ڈھاکہ سٹینڈرڈ ٹائم متعارف کرایا تھا۔ کراچی سٹینڈرڈ ٹائم انڈین وقت سے آدھا گھنٹہ پیچھے اور ڈھاکہ سٹینڈرڈ ٹائم انڈیا سے آدھا گھنٹہ آگے تھا۔
1971 میں جب پاکستان تقسیم ہوا تو اس وقت کراچی سٹینڈرڈ ٹائم کا نام تبدیل کرکے اسے پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم یا پاکستان کا معیاری وقت کا نام دے دیا گیا۔
کچھ لوگوں کے مطابق پاکستان کے وقت کی پیمائش گلگت کے نلتر گاؤں کے قریب سے کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا معیاری وقت شکرگڑھ سے لیا جاتا ھے.” دین پناہ ” وہ مقام ھے جہاں سورج کی پہلی کرن پاکستان پر پڑتی ھے، یہ گاوں دین پناہ بھائی پور اور لالیاں کے وسط میں واقع تھا ۔ اب یہ گاوں تو مکمل طور پر ختم ھو چکا ھے لیکن وھاں پر اب صرف ایک مسجد ہی باقی ھے. اسی مقام سے ہندوستان کا بارڈر ختم ہوتا ہے اور کشمیر کا بارڈر شروع ہوتا ہے۔
اکستان میں وقت کا تعین تو 1951 میں کردیا گیا لیکن پاکستان کے معیاری وقت کے نفاذ میں اب بھی بہت سی مشکلات ہیں۔ آپ اگر اپنے اردگرد کے لوگوں کا ہی اندازہ لگائیں تو سب کی گھڑیوں میں فرق نظر آئے گا۔ کچھ لوگ کسی ٹی وی چینل کو فالو کرکے اپنی گھڑیاں درست کرتے ہیں تو بعض لوگوں کا اپنا ہی نظام ہے۔ رمضان المبارک میں بھی اگر آپ دیکھیں تو سحر و افطار کے اوقات میں ہر مسجد سے ایک ساتھ آواز آنے کی بجائے تھوڑے تھوڑے وقفے سے صدا بلند کی جاتی ہے۔
پاکستانیوں کی گھڑیاں درست نہ ہونے کے معاملے پر ایک بار لاہور ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی ، درخواست گزار نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا تھا کہ پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے ۔ ہر شخص اور ادارے کے گھڑیوں میں منٹس، سیکنڈز،ملی سیکنڈز، مائیکرو سنڈں ز یا نینو سیکنڈز کا فرق پایا جاتا ہے۔وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور پی سی ایس آئی آر کا ذیلی شعبہ پاکستان سٹینڈرڈر ٹائم کو ڈیل کرتا ہے۔ نیشنل فزیکل اینڈ سٹینڈرڈ لیبارٹری پابند ہے کہ ملک میں یکساں اور سٹینڈرڈ ٹائم کی تشہیر کرے۔ این پی ایس ایل ملک میں یکساں سٹینڈرڈ ٹائم متعارف کروانے میں ناکام رہا ہے، این پی ایس ایل کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ہر ٹی وی چینل، ہر ایر لائن، ہر ٹیلی کام کمپنی اور ہر ادارے کی گھڑیاں الگ الگ وقت بتاتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی پاکستانی عوام ملک کے سٹینڈرڈ ٹائم سے ہی لاعلم ہیں جو کہ شرمندگی کا باعث ہے، پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم یکساں نہ ہونے سے عوام الناس کو ہرسال کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
وقت بہت ہی قیمتی چیز ہے ، عقلمندی کی تعریف بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ درست وقت پر درست فیصلہ کرنا ہی عقلمندی ہے، اب اگر پاکستانیوں کی گھڑیاں ہی ٹھیک نہیں ہوں گی تو وہ درست وقت پر درست فیصلے کیسے کریں گے؟ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے، حکومت اگر پاکستان سٹینڈرڈ ٹائم میں موجود خرابیوں کو دور کرنا چاہے تو اسے صرف پانچ منٹ لگیں گے ، حکومت تمام ٹی وی چینلز کی گھڑیاں اپنی سرکاری گھڑی کے مطابق درست کرادے تو عوام کی گھڑیاں بھی خود بخود ٹھیک ہوجائیں گی۔