پاکستان میں بحران کی کیفیت اور اسکا حل

پاکستا ن اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ سیاسی گرما گرمی ، خودکش حملے اور ڈوبتی ہوئی معیشت ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔جبکہ الیکشن کی گہما گہمی کی وجہ سے ملک میں جو انتشار کی صو رت حال ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آداب معاشرت جو اقوام عالم میں بہت اہم چیز ہے اور عوام کا خاصہ ہوتا ہے سیاسی بخار میں عوام اور لیڈرسب کچھ بھول چکے ہیں۔سب کے اذہان اصلاحی اور تعمیری سوچ و بچار کی بجائے سازشی تانے بانے میں الجھے ہو ئے ہیں۔ ہر کوئی اپنے لیے بہترین وکیل اور دوسرے کے لیے جج بنا ہوا ہے۔بہتان اور الزامات کی سیاست، نا زیباو نا شائستہ زبان کا استعمال ،سوشل میڈیا کا غلط استعمال ، وفاداریوں میں تبدیلیاں ، وفاداریوں کی یقین دہانیاں سیاسی ما حول کو گرمائے ہوے ہے۔کوئی حکومتی حبیب ہے تو کوئی رقیب ، بڑے بڑے جلسوں میں لیڈروں کا پارٹی منشور ناپید مگر چور ، ڈاکو ،کرپشن اور لعن طعن کی گردان ختم نہیں ہوتی ایسا لگتا ہے کہ یہ الیکشن مہم نہیں بلکہ تہمتوں ، نفرتوں ،اختلافات ،اخلاقی تنزلی ،بے حسی اور بے ضمیری کا ایسا چیلنج ہے کہ آگر اسکو پورا نہ کیا تو انسانیت کے دائرے سے خارج ہو جائیں گے۔اس پر طرہ یہ کہ تبدیلی کا نعرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی نیا پاکستان
اس پاکستان میں تبدیلی جس کا خواب اقبال نے دیکھااور قائد کی انتھک محنت ،لگن اور سیاسی تدبر نے دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ممکن بنایا۔ دوسری قوم میں مدغم نہیں ہونے دیابا حیثیت ایک قوم ہمیں شناخت اور پہجان دی اور یہ سب الزامات ،تہمات، گالی گلوچ،میوسیکل جلسے جلوسوں کے بغیر کیا۔
ہاتھ گنگن کو آرسی کیا۔۔۔بس دو چار دن کی تو بات ہے۔ نتا ئج سے پہلے ہی جیت کا یقین رکھنے والوں کی تبدیلی صرف چہروں کی تبدیلی ہو گی یا کیا وہ تبدیل کر پائیں گے اس نظام کو۔۔۔۔۔۔کیا وہ رکھ پائیں کے ایسے نظام کی بنیاد۔۔جس میں احتساب کا عمل سب کے لیے یکساں اور انصاف پر مبنی ہو۔ کرپشن اور اقربا پروری نہ ہو سیاست ملکی استحکام کے لیے ہونہ کہ اقتدا ر کے لیے۔کسی کو انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے ، ایوانوں میں بیٹھنے والے اس کا تقدس پامال نہ کریں۔اخلاقیات کا جنازہ نہ نکلے ۔گالی گلوچ اور کنسرٹ کی سیاست نے ہو۔ قرآن و سنت کے حوالے تقاریر تک نہ ہو بلکہ عمل پیرا ہوں ۔ صداقت اور امانت کا پیمانہ متعین ہو۔ امیر اور غریب سب کے لیے یکساں قانون ہو۔لسانیت اور صوباہیت پرستی نہ ہو۔ نہ دہشت گردی ہو اور نہ ہی ضمیر فروشی۔ قومی خزانے سے مہمان نوازی نہ ہو۔ ایوانوں میں بیٹھنے والے عوام کو گدھے بے غیرت اور جاہل نہ کہے ۔زندگی اور موت کی سیاست نہ ہو۔کوئی کسی کی ماں، بہن اور بیٹی کوبھگانے کا ٹویٹ نہ کریں۔ دیگر ممالک کے سربراہان کی صرف مثالیں نہ دیں بلکہ عملی مظاہرہ کریں۔زندگی بے قیمت اور موت لاکھوں کی نہ ہو۔ایسی اصلاحات کریں جس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہو۔تعلیمی نظام بہتر ین ہواور سب سے بڑھ کر ان وعدوں کی پاسداری ہو جو آپ نے اقتدار کے حصول کے لیے کیے۔لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہماری قیادت میں عدل ، اخلاص اور خوف خدا ہو گا۔ قول وفعل میں تضادنہیں ہو گا۔ہر کام کی بر وقت منصوبہ بندی ہو گی۔ قومی امور پر نظر ہو گی۔قومی مفادات کو ترجیح دی جائے گی اور من مانیت کو خیربادکہنا ہو گااور استصواب رائے کو ترجیح بنیاد پر استوار کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں